ETV Bharat / international

بیرونی ممالک کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں تارکین وطن کا کرداراہم - بیرونی ممالک میں بھارتی شہری

سابق سفارت کار انل تریگنیات نے بیرون ممالک میں رہائش پذیر بھارتیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ جہاں ایک طرف بھارتی شہری اعلی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہی کرکے ملک کی سرمایہ کاری میں اہم رول ادا کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف کئی بھارتی شہریوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر استحصال بھی ہوتا ہے۔

بیرونی ممالک کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں تارکین وطن کا کرداراہم
بیرونی ممالک کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں تارکین وطن کا کرداراہم
author img

By

Published : Mar 2, 2020, 7:44 PM IST

Updated : Mar 3, 2020, 4:50 AM IST

بیرونی ممالک میں مقیم ایک کروڑ اسی لاکھ بھارتی شہریوں (انڈین دیاسپورہ) کو سب سے بڑا طبقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے ملک کے شہری بیرونی ممالک میں مقیم نہیں ہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک میں موجود ان بھارتی شہریوں میں 'نان ریزیڈنٹ انڈین (این آر اوز) اور اوور سیز سٹیزنز آف انڈیا' بھی شامل ہیں۔ میزبان ممالک میں اِن بھارتی شہریوں کے سالہا سال کے کنٹریبیوشن اور اُن کی محنت، نظم و ضبط اور لگن جیسی خوبیوں کی وجہ سے انہیں وسیع پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ سے مشرق وسطیٰ تک ہر جگہ بھارت کے لوگ اعلیٰ عہدوں سے لے کر نچلے درجے کے کام کے لئے ایک بہترین ورک فورس مانے جاتے ہیں۔

ایک تخمینے کے مطابق بھارتی شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات، امریکہ اور سعودی عرب میں ہے ۔ ان تینوں ممالک میں بالترتیب 3.4 ملین، 2.6 ملین اور 2.4 ملین بھارتی شہری مقیم ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے موقعے پر امریکہ میں چار ملین بھارتی نژاد شہریوں کے عظیم کنٹری بیوشن کا اعتراف کیا۔

خلیجی ممالک کے تمام شعبوں میں بھارتی شہریوں کو مہارت اور بھروسے کے حوالے سے ایک پیشہ ور افرادی قوت مانا جاتا ہے اورکام کیلئے انہیں ترجیح دی جاتی ہے۔آسٹریلیا کی حکومت نے اپنی 'انڈیا اکونامی اسٹریٹجی 2035 کے حوالے سے بھارتی نژاد عوام کو آسٹریلیا کا ایک قومی معاشی سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہیے۔

آسٹریلیائی حکومت نے مزید کہا ہے کہ بھارتی نژاد شہریوں میں تجارتی جوش و جذبہ اور ان میں کام کرنے کی ہمت اور انڈین مارکیٹ کی وسعت کے پیش نظر مستقبل میں آسٹریلیا کے تجارتی شعبے کو فائدہ پہنچے گا۔ان بھارتی شہریوں کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت کے نتیجے میں مذکورہ ممالک میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔

آج بھارتی شہری اعلیٰ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہی کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھارت کا سر بلند ہورہا ہے۔اس کی وجہ سے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معاشی شعبوں میں سرمایہ کاری کا بڑھتا ہوا رجحان در اصل اِن ہی بھارتی شہریوں کی وجہ سے ہے۔اس کے علاوہ سالانہ 60 بلین ڈالر کا ترسیل زر کی وجہ سے ہماری اقتصادیات کو مضبوطی حاصل ہورہی ہے کیونکہ اس طرح سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے۔

تاہم اس معاملے کا ایک پریشان کن صورتحال بھی دیکھنے کو مل رہا ہے وہ یہ کہ بعض میزبان ممالک میں کئی بار بھارتی شہریوں کے ساتھ استحصال کے معاملے بھی سامنے آرہے ہیں جبکہ خلیجی ممالک سے مزدور طبقہ کو نکالا جارہا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر یہ سب کچھ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہمارے شہری قوائد و ضوبط سے لاعلم اور اپنے حقوق سے بے خبر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں کام کے لئے افرادی قوت فراہم کرنے والے بے ایمان ایجنٹوں اورمتعلقہ مالکان کے غیر ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔کبھی کبھار ہمارے شہریوں کو یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ بھکاریوں کوانتخاب کرنے کا حق نہیں ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اس وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ جب خوبصورت خوابوں کے اسیرن نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے بغیر کسی جانکاری کے مغربی ممالک میں کام کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔

قانونی لوازمات پورے نہ ہونے کی وجہ سے یہ وہاں غیر قانونی تارکین وطن کے زمرے میں آجاتے ہیں اور اُن پر اُفتاد نازل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔خلیجی ممالک میں ورک پر مٹس اور اقامہ عمومی طور پر یکطرفہ قوائد و شرائط پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے پاسپورٹس عمومی طور پر مالکان ( کفیل) اپنے پاس رکھتے ہیں، جو کہ انڈین پاسپورٹ ضوابط کی رو سے غیر قانونی ہے۔لیکن اس کے باوجود بیرونی ممالک میں کام کرنے والوں کو اپنے آدھار کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنز کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے، تاکہ کسی مصیبت کی صورت میں بھارتی سفارتخانے اُن کی مدد کرسکیں۔

درمیانہ دار اور ایجنٹس عمومی طور پر بیرونی ممالک جانے والوں کو پوری جانکاری فراہم نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ زیادہ تر کام کے متلاشی ان مجبور لوگوں کو خوبصورت جھانسے ہی دیتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بیرونی ممالک جانے والے لوگ پہلے ہدایات اور جانکاری حاصل کرنے کے لئے سرکاری ذرائع سے رجوع کریں۔ انہیں اپنے سفری دستاویزات کی نقول اپنے گھر میں بھی رکھنی چاہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام فراہم کرنے والی متعلقہ ایجنسیز کے بارے میں پہلے اپنے ملک میں ہی پوری واقفیت حاصل کریں اور جانے سے پہلے عربی کے کچھ جملے اور الفاظ بھی سیکھ لیں۔

حالانکہ حکومتی سطح پر بھی بیرونی ممالک میں روزگار کے لئے جانے والوں کی مدد کے لئے اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ پر 'امیگریشن کلیرینس ریکارڈ' کی مہر ثبت کی جاتی، جوخارجی امور کی وزارت سے منسلک جنرل آف امیگرینٹس کی جانب سے کچھ چھان بین کے بعد ڈالی جاتی ہے۔

بیروآف امیگریشن کے اشتراک سے ایک ڈاٹا بیس تیار کی جاتی ہے، جس میں روزگار فراہم کرنے والے غیر ملکی مالکان کا اندراج کیا جاتا ہے تاکہ انہیں جوابدہ بنایا جاسکے۔مختلف ممالک میں بھارتی سفارتخانوں میں انڈین کموینٹی ویلفئیر فنڈ بھی مہیا کیا جاتا ہے، تاکہ پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کی فوری مدد کی جاسکے ۔اس کے علاوہ ان کے مسائل کو مالکان اور متعلقہ سرکاری ایجنسیز کے ساتھ بھی اٹھایا جاتا ہے۔

کئی ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں، جب گھروں میں کام کرنے والی بھارتی خواتین ، نرسوں اور دیگر خواتین سٹاف کے ساتھ ناروا سلوک ہونے پر بھارتی سفارتخانوں نے ان کے لئے شیلٹر ہاؤسز کھولے اور انہیں تحفظ فراہم کیا کیا۔ روزگار کے لئے بیرونی ممالک جانے والوں کو چاہئے کہ وہ انشورنس بھی کرائیں تاکہ اگر انہیں اچانک واپس آنا پڑے یا ان کے کنٹریکٹس کو منسوخ کیا گیا تو یہاں ان کی کچھ مدد ہوسکے۔

حکومت نے بیرونی ممالک میں روزگار کے حصول کے لئے جانے والی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی قوائد بنائے ہیں، جن کے ذریعے انہیں روزگار فراہم کرنے والے مالکان سے ضمانت لی جاتی ہے اور ان کام کرنے والی خواتین کی معقول اجرتیں یقینی بنائی جاتی ہیں۔ بیرونی ممالک جانے والوں کو مکمل جانکاری فراہم کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

لیکن ان سبھی احتیاطی تدابیر کے باوجود کئی بار غیر متوقع مثالیں اور صورتحال دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت ہند نے مختلف ممالک کے ساتھ 'میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ 'طئے پائے ہیں، جن کی وجہ سے بھارتی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا، انہیں مشاورت کی سہولیات دینا، ان کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے اور انہیں فوری امداد فراہم کرنا یقینی ہوپا رہا ہے۔

کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بھارتی سفارتخانے خدمات فراہم کرنے کے لئے چوبیسوں گھنٹے تیار رہتے ہیں۔امور خارجہ کی سابق وزیر آنجہانی سشما سوراج نے بھارتی سفارتخانوں کو 'گھر سے باہر گھر' قرار دیا تھا۔ وہ بھارتی شہریوں کے انفرادی مسائل کو حل کرنے میں بھی ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔

موجودہ وزیر خارجہ نے بھی جوش وخروش کے ساتھ اسی جذبے کو آگے بڑھایا ہے۔وزیر اعظم مودی بیرونی ملکوں میں رہ رہے بھارتی شہریوں کی فلاح و بہبود کی جانب خاص توجہ دے رہے ہیں۔وہ اس ضمن میں خصوصی مواقعوں پر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارتی سرکار اس ضمن میں کئی سطحوں پر کام کررہی ہے۔

بیرونی ممالک میں مقیم بھارتی شہریوں کے کنٹری بیوشن کے اعتراف میں اور ان کے ساتھ ایک جذباتی لگائو قائم کرنے کے لئے 'پرواسی بھارتی دیوس' بھی منایا جاتا ہے، جس میں ممتازنان ریزیڈینٹ آف انڈیا( این آر اوز) اور پرسنز آف انڈین آرجن( پی آئی اوز) کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ریاستی حکومتوں نے بیرونی ممالک میں مقیم شہریوں کو سپورٹ کرنے کے لئے اپنی ویلفئیر ایجنسیز قائم کی ہوئی ہیں۔ ان ریاستوں میں این آر آئز اور بیرونی ممالک میں مقیم دیگر لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لئے خصوصی تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

روز گار کے سلسلے میں بیرونی ممالک جانے والے بھارتی شہریوں کو یہ بات گانٹھ باندھ لینی چاہیے کہ کسی بھی مشکل وقت میں مدد کے حصول کے لئے بھارتی سفارتخانہ اُن کے لئے رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے سفارتخانوں سے مدد حاصل کرنے میں کبھی بھی نہ ہچکچائیں۔ ویسے بھی بات خواہ اپنے شہریوں کی ہو یا پڑوسیوں ممالک کے باشندگان کی، بھارت ہمیشہ مدد کرنے میں پہل کرتا ہے۔

اس ضمن میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ چین میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد اپنے شہریوں کو نکال لانے اور یمن، لیبیا، لیبنان، شام اور عراق جیسے جنگ ذدہ خطوں میں پچھلے کچھ سالوں کے دوران بھارتی شہریوں کو تحفظ کے ساتھ واپس لانے میں سفارتخانوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کی ہے۔

بیرونی ممالک جانے والوں کو پہلے اس بات کی بھی جانچ کرنی چاہیے کہ جہاں وہ جارہے ہیں، کہیں ہماری حکومت نے اس ملک کا سفر کرنے کے حوالے سے کوئی ایڈوائزری تو جاری نہیں کی ہے۔ ساتھ ہی انہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور کسی مصیبت میں پھنسنے سے بچے رہنے کے لئے اپنے بھارتی سفارتخانوں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر ان سے مشورہ لیتے رہنا چاہیے۔

سفارتکار انل تریگنیات جارڈن، لیبیا اور مالٹا میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں۔

بیرونی ممالک میں مقیم ایک کروڑ اسی لاکھ بھارتی شہریوں (انڈین دیاسپورہ) کو سب سے بڑا طبقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے ملک کے شہری بیرونی ممالک میں مقیم نہیں ہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک میں موجود ان بھارتی شہریوں میں 'نان ریزیڈنٹ انڈین (این آر اوز) اور اوور سیز سٹیزنز آف انڈیا' بھی شامل ہیں۔ میزبان ممالک میں اِن بھارتی شہریوں کے سالہا سال کے کنٹریبیوشن اور اُن کی محنت، نظم و ضبط اور لگن جیسی خوبیوں کی وجہ سے انہیں وسیع پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ سے مشرق وسطیٰ تک ہر جگہ بھارت کے لوگ اعلیٰ عہدوں سے لے کر نچلے درجے کے کام کے لئے ایک بہترین ورک فورس مانے جاتے ہیں۔

ایک تخمینے کے مطابق بھارتی شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات، امریکہ اور سعودی عرب میں ہے ۔ ان تینوں ممالک میں بالترتیب 3.4 ملین، 2.6 ملین اور 2.4 ملین بھارتی شہری مقیم ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے موقعے پر امریکہ میں چار ملین بھارتی نژاد شہریوں کے عظیم کنٹری بیوشن کا اعتراف کیا۔

خلیجی ممالک کے تمام شعبوں میں بھارتی شہریوں کو مہارت اور بھروسے کے حوالے سے ایک پیشہ ور افرادی قوت مانا جاتا ہے اورکام کیلئے انہیں ترجیح دی جاتی ہے۔آسٹریلیا کی حکومت نے اپنی 'انڈیا اکونامی اسٹریٹجی 2035 کے حوالے سے بھارتی نژاد عوام کو آسٹریلیا کا ایک قومی معاشی سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہیے۔

آسٹریلیائی حکومت نے مزید کہا ہے کہ بھارتی نژاد شہریوں میں تجارتی جوش و جذبہ اور ان میں کام کرنے کی ہمت اور انڈین مارکیٹ کی وسعت کے پیش نظر مستقبل میں آسٹریلیا کے تجارتی شعبے کو فائدہ پہنچے گا۔ان بھارتی شہریوں کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت کے نتیجے میں مذکورہ ممالک میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔

آج بھارتی شہری اعلیٰ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہی کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھارت کا سر بلند ہورہا ہے۔اس کی وجہ سے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معاشی شعبوں میں سرمایہ کاری کا بڑھتا ہوا رجحان در اصل اِن ہی بھارتی شہریوں کی وجہ سے ہے۔اس کے علاوہ سالانہ 60 بلین ڈالر کا ترسیل زر کی وجہ سے ہماری اقتصادیات کو مضبوطی حاصل ہورہی ہے کیونکہ اس طرح سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے۔

تاہم اس معاملے کا ایک پریشان کن صورتحال بھی دیکھنے کو مل رہا ہے وہ یہ کہ بعض میزبان ممالک میں کئی بار بھارتی شہریوں کے ساتھ استحصال کے معاملے بھی سامنے آرہے ہیں جبکہ خلیجی ممالک سے مزدور طبقہ کو نکالا جارہا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر یہ سب کچھ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہمارے شہری قوائد و ضوبط سے لاعلم اور اپنے حقوق سے بے خبر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں کام کے لئے افرادی قوت فراہم کرنے والے بے ایمان ایجنٹوں اورمتعلقہ مالکان کے غیر ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔کبھی کبھار ہمارے شہریوں کو یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ بھکاریوں کوانتخاب کرنے کا حق نہیں ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اس وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ جب خوبصورت خوابوں کے اسیرن نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے بغیر کسی جانکاری کے مغربی ممالک میں کام کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔

قانونی لوازمات پورے نہ ہونے کی وجہ سے یہ وہاں غیر قانونی تارکین وطن کے زمرے میں آجاتے ہیں اور اُن پر اُفتاد نازل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔خلیجی ممالک میں ورک پر مٹس اور اقامہ عمومی طور پر یکطرفہ قوائد و شرائط پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے پاسپورٹس عمومی طور پر مالکان ( کفیل) اپنے پاس رکھتے ہیں، جو کہ انڈین پاسپورٹ ضوابط کی رو سے غیر قانونی ہے۔لیکن اس کے باوجود بیرونی ممالک میں کام کرنے والوں کو اپنے آدھار کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنز کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے، تاکہ کسی مصیبت کی صورت میں بھارتی سفارتخانے اُن کی مدد کرسکیں۔

درمیانہ دار اور ایجنٹس عمومی طور پر بیرونی ممالک جانے والوں کو پوری جانکاری فراہم نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ زیادہ تر کام کے متلاشی ان مجبور لوگوں کو خوبصورت جھانسے ہی دیتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بیرونی ممالک جانے والے لوگ پہلے ہدایات اور جانکاری حاصل کرنے کے لئے سرکاری ذرائع سے رجوع کریں۔ انہیں اپنے سفری دستاویزات کی نقول اپنے گھر میں بھی رکھنی چاہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام فراہم کرنے والی متعلقہ ایجنسیز کے بارے میں پہلے اپنے ملک میں ہی پوری واقفیت حاصل کریں اور جانے سے پہلے عربی کے کچھ جملے اور الفاظ بھی سیکھ لیں۔

حالانکہ حکومتی سطح پر بھی بیرونی ممالک میں روزگار کے لئے جانے والوں کی مدد کے لئے اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ پر 'امیگریشن کلیرینس ریکارڈ' کی مہر ثبت کی جاتی، جوخارجی امور کی وزارت سے منسلک جنرل آف امیگرینٹس کی جانب سے کچھ چھان بین کے بعد ڈالی جاتی ہے۔

بیروآف امیگریشن کے اشتراک سے ایک ڈاٹا بیس تیار کی جاتی ہے، جس میں روزگار فراہم کرنے والے غیر ملکی مالکان کا اندراج کیا جاتا ہے تاکہ انہیں جوابدہ بنایا جاسکے۔مختلف ممالک میں بھارتی سفارتخانوں میں انڈین کموینٹی ویلفئیر فنڈ بھی مہیا کیا جاتا ہے، تاکہ پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کی فوری مدد کی جاسکے ۔اس کے علاوہ ان کے مسائل کو مالکان اور متعلقہ سرکاری ایجنسیز کے ساتھ بھی اٹھایا جاتا ہے۔

کئی ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں، جب گھروں میں کام کرنے والی بھارتی خواتین ، نرسوں اور دیگر خواتین سٹاف کے ساتھ ناروا سلوک ہونے پر بھارتی سفارتخانوں نے ان کے لئے شیلٹر ہاؤسز کھولے اور انہیں تحفظ فراہم کیا کیا۔ روزگار کے لئے بیرونی ممالک جانے والوں کو چاہئے کہ وہ انشورنس بھی کرائیں تاکہ اگر انہیں اچانک واپس آنا پڑے یا ان کے کنٹریکٹس کو منسوخ کیا گیا تو یہاں ان کی کچھ مدد ہوسکے۔

حکومت نے بیرونی ممالک میں روزگار کے حصول کے لئے جانے والی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی قوائد بنائے ہیں، جن کے ذریعے انہیں روزگار فراہم کرنے والے مالکان سے ضمانت لی جاتی ہے اور ان کام کرنے والی خواتین کی معقول اجرتیں یقینی بنائی جاتی ہیں۔ بیرونی ممالک جانے والوں کو مکمل جانکاری فراہم کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

لیکن ان سبھی احتیاطی تدابیر کے باوجود کئی بار غیر متوقع مثالیں اور صورتحال دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت ہند نے مختلف ممالک کے ساتھ 'میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ 'طئے پائے ہیں، جن کی وجہ سے بھارتی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا، انہیں مشاورت کی سہولیات دینا، ان کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے اور انہیں فوری امداد فراہم کرنا یقینی ہوپا رہا ہے۔

کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بھارتی سفارتخانے خدمات فراہم کرنے کے لئے چوبیسوں گھنٹے تیار رہتے ہیں۔امور خارجہ کی سابق وزیر آنجہانی سشما سوراج نے بھارتی سفارتخانوں کو 'گھر سے باہر گھر' قرار دیا تھا۔ وہ بھارتی شہریوں کے انفرادی مسائل کو حل کرنے میں بھی ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔

موجودہ وزیر خارجہ نے بھی جوش وخروش کے ساتھ اسی جذبے کو آگے بڑھایا ہے۔وزیر اعظم مودی بیرونی ملکوں میں رہ رہے بھارتی شہریوں کی فلاح و بہبود کی جانب خاص توجہ دے رہے ہیں۔وہ اس ضمن میں خصوصی مواقعوں پر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارتی سرکار اس ضمن میں کئی سطحوں پر کام کررہی ہے۔

بیرونی ممالک میں مقیم بھارتی شہریوں کے کنٹری بیوشن کے اعتراف میں اور ان کے ساتھ ایک جذباتی لگائو قائم کرنے کے لئے 'پرواسی بھارتی دیوس' بھی منایا جاتا ہے، جس میں ممتازنان ریزیڈینٹ آف انڈیا( این آر اوز) اور پرسنز آف انڈین آرجن( پی آئی اوز) کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ریاستی حکومتوں نے بیرونی ممالک میں مقیم شہریوں کو سپورٹ کرنے کے لئے اپنی ویلفئیر ایجنسیز قائم کی ہوئی ہیں۔ ان ریاستوں میں این آر آئز اور بیرونی ممالک میں مقیم دیگر لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لئے خصوصی تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

روز گار کے سلسلے میں بیرونی ممالک جانے والے بھارتی شہریوں کو یہ بات گانٹھ باندھ لینی چاہیے کہ کسی بھی مشکل وقت میں مدد کے حصول کے لئے بھارتی سفارتخانہ اُن کے لئے رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے سفارتخانوں سے مدد حاصل کرنے میں کبھی بھی نہ ہچکچائیں۔ ویسے بھی بات خواہ اپنے شہریوں کی ہو یا پڑوسیوں ممالک کے باشندگان کی، بھارت ہمیشہ مدد کرنے میں پہل کرتا ہے۔

اس ضمن میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ چین میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد اپنے شہریوں کو نکال لانے اور یمن، لیبیا، لیبنان، شام اور عراق جیسے جنگ ذدہ خطوں میں پچھلے کچھ سالوں کے دوران بھارتی شہریوں کو تحفظ کے ساتھ واپس لانے میں سفارتخانوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کی ہے۔

بیرونی ممالک جانے والوں کو پہلے اس بات کی بھی جانچ کرنی چاہیے کہ جہاں وہ جارہے ہیں، کہیں ہماری حکومت نے اس ملک کا سفر کرنے کے حوالے سے کوئی ایڈوائزری تو جاری نہیں کی ہے۔ ساتھ ہی انہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور کسی مصیبت میں پھنسنے سے بچے رہنے کے لئے اپنے بھارتی سفارتخانوں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر ان سے مشورہ لیتے رہنا چاہیے۔

سفارتکار انل تریگنیات جارڈن، لیبیا اور مالٹا میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں۔

Last Updated : Mar 3, 2020, 4:50 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.