ETV Bharat / international

لداخ میں بھارت اور چین کا آمنا سامنا باعثِ تشویش

سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز کے ڈائریکٹر سی ادئے بھاسکر نے بھارت اور چین کی سرحد پر پیدا ہوئے کشیدہ صورتحال پر کہا ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے جارحانہ پیٹرولنگ اور سرحد پر انفراسٹکچر قائم کرنے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ سرحدی حدود سے متعلق دونوں ممالک کے اپنے اپنے بیان ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ حد سے زیادہ نیشنلزم کا پرچار اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے جنون پیدا کرنے کے نتیجے میں صورتحال ابتر ہوسکتی ہے۔

لداخ میں بھارت اور چین کا آمنا سامنا باعثِ تشویش
لداخ میں بھارت اور چین کا آمنا سامنا باعثِ تشویش
author img

By

Published : May 27, 2020, 3:26 PM IST

Updated : May 27, 2020, 3:33 PM IST

بھارت اور چین کے دوطرفہ تعلقات میں اس وقت شدید تناؤ عیاں ہے۔ یہ پُر تناو صورتحال لداخ میں چار ہزار کلو میٹر طویل غیر متعین لائن آف ایکچیول کنٹرول پر پیدا ہوگئی ہے۔

فی الوقت متنازعہ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر معمول سے زیادہ تعداد میں افواج تعینات کردی گئی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مشرقی لداخ بشمول پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے اور گلوان ویلی میں بارہ سو سے پندرہ سو تک کی تعداد میں پیپلز لبریشن آرمی کے اہلکار اور بھارتی فوجی جوان آنکھ میں آنکھ ملائے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

تاہم یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ اب تک نہ ہی بھارت اور نہ ہی چین نے حکومتی سطح پر کوئی ایسا بیان جاری کیا ہے، جسے اشتعال انگیز قرار دیا جاسکے۔ لیکن کیا صبر و تحمل اور سمجھداری کا یہ مظاہرہ تناو ختم ہوجانے تک بدستور برقرار رہے گا؟

سیاسی اور فوجی سطح پر اختلافات کے بیچ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ کووِڈ19 کے لاک ڈاون کی وجہ سے بھارت میں پھنسے اپنے شہریوں کو اگلے ہفتے سے، یعنی ماہِ جون کی شروعات کے ساتھ ہی واپس لانا شروع کردے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فی الوقت دُنیا کے مختلف ممالک میں دس لاکھ سے زائد چینی باشندے پھنسے ہوئے ہیں لیکن چین نے صرف بھارت میں پھنسے اپنے چند ہزار شہریوں کو ہی واپس لانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح سے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دُنیا کی دو بڑی اقوام کے دو طرفہ تعلقات اختلافات اور عدم اطمینان کی عکاسی کررہے ہیں۔ اس موقع پر اُن محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہوگا، جن کی وجہ سے موجودہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور مستقبل قریب میں مزید تناؤ بڑھنے کا احتمال پیدا ہوگیا ہے۔

بھارت اور چین نے بالترتیب سنہ 1947ء اور سنہ 1949ء میں آزادی حاصل کی ۔ دونوں اقوام دُنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ دونوں کا ایک شاندار ماضی رہا ہے اور دونوں ممالک دُنیا کے باقی ممالک کے مقابلے میں جدید قومی مملکتیں ہیں۔ نوآبادیاتی نظام انیسویں صدی میں ان ممالک کی تقسیم کاری پر منتج ہوا۔ چونکہ دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں، اس لئے دونوں نے ان سرحدوں کو مہذبانہ طور پر تسلیم کیا۔ سنہ 1962ء میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک متنازعہ علاقائی خطے کی وجہ سے ایک مختصر جنگ چھڑ گئی، جو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ لیکن آج دہائیوں بعد بھی تناؤ کی صورتحال برقرار ہے۔ اسی لئے دونوں ملکوں کے درمیان (متعین سرحد کے بجائے) لائن آف ایکچول کنٹرول قائم ہے۔ یہ ایک علامتی لکیر ہے جو دونوں ممالک کی جانب اُن خطوں کے بیچ میں حائل ہیں، جنہیں وہ اپنا قرار دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی فوجیں اس لائن سے منسلک علاقوں میں پیٹرولنگ کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ یہاں پر دونوں ممالک کی کلیم لائن ہے یعنی دونوں ممالک ایک دوسرے کے خطوں میں اپنی زمین کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لئے ظاہر ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول سے آگے دونوں ممالک کی کلیم لائنز واقع ہیں اور یہ تب تک موجود رہیں گی، جب تک (سرحدیں متعین کرنے سے متعلق) کوئی حتمی سیاسی حل نہیں نکالا جاتا ہے۔ لیکن ماضی میں بھی دونوں طرف کے فوجیوں کی جانب سے جارحانہ پیٹرولنگ کی وجہ سے صورتحال پر تناؤ ہوتی رہی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان راجیو گاندھی کے زمانے میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا، جسے 1993ء میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے دور اقتدار میں ایک رسمی معاہدے کی شکل دے دی گئی۔ لیکن تنازعے کی وجہ سے لائن آف ایکچول کنٹرول کے گرد نواح میں دونوں ممالک کی افواج بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ حالانکہ دونوں طرف سے گزشتہ پچیس سال کے دوران ایک بھی گولی نہیں چلی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر تین بڑے واقعات رونما ہوئے۔ ایک دیپسانگ سرحد پر 2013ء میں، دوسرا چمر میں 2014ء میں اور تیسرا 2017ء میں ڈوکلام میں۔ لیکن تینوں بار معاملات کو سیاسی اور سفارتی طریقوں سے حل کیا گیا۔

موجودہ صورتحال سے متعلق بھارت میں جو تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں، اُن کے مطابق اپریل کے تیسرے ہفتے میں پیپلز لبریشن آرمی کے اہلکاروں نے لداخ میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر خاموشی سے اپنی فوجیں آگے بڑھا دیں۔ مئی کے ابتدا تک پیپلز لبریشن آرمی نے مزید کئی علاقوں تک دراندازی پھیلادی اور پانچ ہزار سے زائد فوجیوں کو تعینات کیا گیا۔ بھارت نے بھی اسی تعداد میں فوجیں تعینات کردیں۔ اس اقدام کو فوجی اصطلاح میں ’’مرر ڈپلائی منٹ‘‘ پکارا جاتا ہے۔ یعنی بھارت نے چینی فوج کے مقابلے میں یکساں تعداد میں اپنی فوجیں تعینات کردیں۔ فی الوقت صورتحال نازک بنی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کی فوج کا اس طرح سے آمنے سامنے آجانا ایک غیر معمولی معاملہ ہے۔ کیونکہ ماضی کے برعکس اس بار ایک تو چین نے کئی مقامات پر دراندازی کی ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں زیادہ تعداد میں افرادی قوت کو شامل کیا گیا ہے۔ جس جگہ پر یہ پر تناو صورتحال قائم ہے، یعنی لداخ وہ جغرافیائی لحاظ سے ایک غیر معمولی جگہ ہے۔

آف ایکچیول کنٹرول 489 کلو میٹر پر محیط ہے۔ گلوان ویلی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر اس سے پہلے کبھی بھی چین نے دراندازی نہیں کی تھی۔ اسی طرح چینی فوج نے لائن آف ایکچیول کنٹرول پر پیٹرولنگ میں بھی شدت لائی ہے۔ اپریل کے بعد کی یہ ساری باتیں اس لئے غیر معمولی ہیں کیونکہ ماضی میں چین کی جانب سے اس طرح کے جارحانہ اقدامات کبھی دیکھنے کو نہیں ملے ہیں۔ حالانکہ چینی فوجیوں کی جانب سے لائن آف ایکچیول کنٹرول پر دراندازی کے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ہمیشہ اس طرح کی صورتحال کو دونوں ممالک کی جانب سے موقعے پر تعینات افسران کی بات چیت سے حل کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اپریل کے بعد یہ واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

اس لحاظ سے موجودہ صورتحال خطرناک ہے اور یہ فوری سیاسی حل کا متقاضی ہے۔ چین کی اس حرکت کے مقاصد ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے جارحانہ پیٹرولنگ اور سرحد پر انفراسٹکچر قائم کرنے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

اس کے علاوہ چین کی جانب سے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو سمیٹنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ رجحان جنوبی چین کے سمندری علاقوں میں بھی اور بھارت کے ساتھ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ صدر زی جن پنگ کے دور میں چین کی جانب سے اپنے سرحدی حدود بڑھانے کا یہ رجحان شدت اختیار کرگیا۔ اس ضمن میں تائیوان کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔

کیا موجودہ صورتحال ابتر ہوجائے گی اور کیا اس کے نتیجے میں فوجی تنائو بڑھ جائے گا۔ یہ دیکھنے والی باتیں ہونگیں۔ سرحدی حدود سے متعلق دونوں ممالک کے اپنے اپنے بیان ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ حد سے زیادہ نیشنلزم کا پرچار اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے پر جنون پیدا کرنے کے نتیجے میں صورتحال ابتر ہوسکتی ہے۔

کووِڈ19 وبا کی وجہ سے دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کو پہلے ہی بہت بڑا چیلنچ درپیش ہے۔ اس لئے اُمید کی جانی چاہیے کہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

بھارت اور چین کے دوطرفہ تعلقات میں اس وقت شدید تناؤ عیاں ہے۔ یہ پُر تناو صورتحال لداخ میں چار ہزار کلو میٹر طویل غیر متعین لائن آف ایکچیول کنٹرول پر پیدا ہوگئی ہے۔

فی الوقت متنازعہ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر معمول سے زیادہ تعداد میں افواج تعینات کردی گئی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مشرقی لداخ بشمول پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے اور گلوان ویلی میں بارہ سو سے پندرہ سو تک کی تعداد میں پیپلز لبریشن آرمی کے اہلکار اور بھارتی فوجی جوان آنکھ میں آنکھ ملائے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

تاہم یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ اب تک نہ ہی بھارت اور نہ ہی چین نے حکومتی سطح پر کوئی ایسا بیان جاری کیا ہے، جسے اشتعال انگیز قرار دیا جاسکے۔ لیکن کیا صبر و تحمل اور سمجھداری کا یہ مظاہرہ تناو ختم ہوجانے تک بدستور برقرار رہے گا؟

سیاسی اور فوجی سطح پر اختلافات کے بیچ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ کووِڈ19 کے لاک ڈاون کی وجہ سے بھارت میں پھنسے اپنے شہریوں کو اگلے ہفتے سے، یعنی ماہِ جون کی شروعات کے ساتھ ہی واپس لانا شروع کردے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فی الوقت دُنیا کے مختلف ممالک میں دس لاکھ سے زائد چینی باشندے پھنسے ہوئے ہیں لیکن چین نے صرف بھارت میں پھنسے اپنے چند ہزار شہریوں کو ہی واپس لانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح سے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دُنیا کی دو بڑی اقوام کے دو طرفہ تعلقات اختلافات اور عدم اطمینان کی عکاسی کررہے ہیں۔ اس موقع پر اُن محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہوگا، جن کی وجہ سے موجودہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور مستقبل قریب میں مزید تناؤ بڑھنے کا احتمال پیدا ہوگیا ہے۔

بھارت اور چین نے بالترتیب سنہ 1947ء اور سنہ 1949ء میں آزادی حاصل کی ۔ دونوں اقوام دُنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ دونوں کا ایک شاندار ماضی رہا ہے اور دونوں ممالک دُنیا کے باقی ممالک کے مقابلے میں جدید قومی مملکتیں ہیں۔ نوآبادیاتی نظام انیسویں صدی میں ان ممالک کی تقسیم کاری پر منتج ہوا۔ چونکہ دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں، اس لئے دونوں نے ان سرحدوں کو مہذبانہ طور پر تسلیم کیا۔ سنہ 1962ء میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک متنازعہ علاقائی خطے کی وجہ سے ایک مختصر جنگ چھڑ گئی، جو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ لیکن آج دہائیوں بعد بھی تناؤ کی صورتحال برقرار ہے۔ اسی لئے دونوں ملکوں کے درمیان (متعین سرحد کے بجائے) لائن آف ایکچول کنٹرول قائم ہے۔ یہ ایک علامتی لکیر ہے جو دونوں ممالک کی جانب اُن خطوں کے بیچ میں حائل ہیں، جنہیں وہ اپنا قرار دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی فوجیں اس لائن سے منسلک علاقوں میں پیٹرولنگ کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ یہاں پر دونوں ممالک کی کلیم لائن ہے یعنی دونوں ممالک ایک دوسرے کے خطوں میں اپنی زمین کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لئے ظاہر ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول سے آگے دونوں ممالک کی کلیم لائنز واقع ہیں اور یہ تب تک موجود رہیں گی، جب تک (سرحدیں متعین کرنے سے متعلق) کوئی حتمی سیاسی حل نہیں نکالا جاتا ہے۔ لیکن ماضی میں بھی دونوں طرف کے فوجیوں کی جانب سے جارحانہ پیٹرولنگ کی وجہ سے صورتحال پر تناؤ ہوتی رہی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان راجیو گاندھی کے زمانے میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا، جسے 1993ء میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے دور اقتدار میں ایک رسمی معاہدے کی شکل دے دی گئی۔ لیکن تنازعے کی وجہ سے لائن آف ایکچول کنٹرول کے گرد نواح میں دونوں ممالک کی افواج بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ حالانکہ دونوں طرف سے گزشتہ پچیس سال کے دوران ایک بھی گولی نہیں چلی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر تین بڑے واقعات رونما ہوئے۔ ایک دیپسانگ سرحد پر 2013ء میں، دوسرا چمر میں 2014ء میں اور تیسرا 2017ء میں ڈوکلام میں۔ لیکن تینوں بار معاملات کو سیاسی اور سفارتی طریقوں سے حل کیا گیا۔

موجودہ صورتحال سے متعلق بھارت میں جو تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں، اُن کے مطابق اپریل کے تیسرے ہفتے میں پیپلز لبریشن آرمی کے اہلکاروں نے لداخ میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر خاموشی سے اپنی فوجیں آگے بڑھا دیں۔ مئی کے ابتدا تک پیپلز لبریشن آرمی نے مزید کئی علاقوں تک دراندازی پھیلادی اور پانچ ہزار سے زائد فوجیوں کو تعینات کیا گیا۔ بھارت نے بھی اسی تعداد میں فوجیں تعینات کردیں۔ اس اقدام کو فوجی اصطلاح میں ’’مرر ڈپلائی منٹ‘‘ پکارا جاتا ہے۔ یعنی بھارت نے چینی فوج کے مقابلے میں یکساں تعداد میں اپنی فوجیں تعینات کردیں۔ فی الوقت صورتحال نازک بنی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کی فوج کا اس طرح سے آمنے سامنے آجانا ایک غیر معمولی معاملہ ہے۔ کیونکہ ماضی کے برعکس اس بار ایک تو چین نے کئی مقامات پر دراندازی کی ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں زیادہ تعداد میں افرادی قوت کو شامل کیا گیا ہے۔ جس جگہ پر یہ پر تناو صورتحال قائم ہے، یعنی لداخ وہ جغرافیائی لحاظ سے ایک غیر معمولی جگہ ہے۔

آف ایکچیول کنٹرول 489 کلو میٹر پر محیط ہے۔ گلوان ویلی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر اس سے پہلے کبھی بھی چین نے دراندازی نہیں کی تھی۔ اسی طرح چینی فوج نے لائن آف ایکچیول کنٹرول پر پیٹرولنگ میں بھی شدت لائی ہے۔ اپریل کے بعد کی یہ ساری باتیں اس لئے غیر معمولی ہیں کیونکہ ماضی میں چین کی جانب سے اس طرح کے جارحانہ اقدامات کبھی دیکھنے کو نہیں ملے ہیں۔ حالانکہ چینی فوجیوں کی جانب سے لائن آف ایکچیول کنٹرول پر دراندازی کے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ہمیشہ اس طرح کی صورتحال کو دونوں ممالک کی جانب سے موقعے پر تعینات افسران کی بات چیت سے حل کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اپریل کے بعد یہ واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

اس لحاظ سے موجودہ صورتحال خطرناک ہے اور یہ فوری سیاسی حل کا متقاضی ہے۔ چین کی اس حرکت کے مقاصد ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے جارحانہ پیٹرولنگ اور سرحد پر انفراسٹکچر قائم کرنے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

اس کے علاوہ چین کی جانب سے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو سمیٹنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ رجحان جنوبی چین کے سمندری علاقوں میں بھی اور بھارت کے ساتھ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ صدر زی جن پنگ کے دور میں چین کی جانب سے اپنے سرحدی حدود بڑھانے کا یہ رجحان شدت اختیار کرگیا۔ اس ضمن میں تائیوان کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔

کیا موجودہ صورتحال ابتر ہوجائے گی اور کیا اس کے نتیجے میں فوجی تنائو بڑھ جائے گا۔ یہ دیکھنے والی باتیں ہونگیں۔ سرحدی حدود سے متعلق دونوں ممالک کے اپنے اپنے بیان ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ حد سے زیادہ نیشنلزم کا پرچار اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے پر جنون پیدا کرنے کے نتیجے میں صورتحال ابتر ہوسکتی ہے۔

کووِڈ19 وبا کی وجہ سے دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کو پہلے ہی بہت بڑا چیلنچ درپیش ہے۔ اس لئے اُمید کی جانی چاہیے کہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

Last Updated : May 27, 2020, 3:33 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.