رومن کیتھولک مسیحی برادری کے عالمی روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے پہلی بار چین کے یغور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
پوپ فرانسس کی حال ہی میں نئی کتاب سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے چین کے یغور مسلمانوں کو مظلوم اور اذیتوں کے شکار لوگ قرار دیا ہے۔
- آخر کار خاموش توڑی:
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکن سالہا سال سے پوپ فرانسس کو یغور مسلمانوں سے متعلق آگاہ کرارہے تھے اور انھیں ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں بولنے کی اپیل کررہے تھے۔ تاہم وہ اب تک اس معاملے پر خاموش تھے۔
پوپ فرانسس نے یغور مسلمانوں کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں اور شام و عراق کی عوام پر ہونے والے مظالم کا بھی ذکر کیا اور مسلم ممالک میں مظالم کا شکار ہونے والے مسیحیوں کی بھی بات کی۔
- مستقل عالمی بنیادی آمدنی:
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق پوپ فرانسس نے اپنی کتاب میں عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ۔19) کے معاملے پر بھی بات کی ہے اور کہا ہے کہ 'اس وبا کے بعد حکومتوں کو ایک مستقل عالمی بنیادی آمدنی طے کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے تاکہ شہریوں کو اس طرح کی وباﺅں کی صورت میں فاقوں سے محفوظ رکھا جا سکے'۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کے کارکن طویل عرصے سے پوپ سے سنکیانگ کے معاملے پر اپنے تاثرات جاری کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
ماضی میں پوپ فرانسس نے کیتھولک سمیت مذہبی اقلیتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لئے چین سے آواز اٹھانے سے انکار کردیا، جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کی مایوسی پھیل گئی۔
فرانسس کے ریمارکس پر چین کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے بیان کی کوئی حقیقت پسندانہ بنیاد نہیں ہے۔
- نسلی اقلیت یغور مسلمانوں کا مسئلہ کیا ہے؟
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق چینی حکومت نے سنگیانک کے نسلی اقلیت یغور مسلمانوں کے لیے جیل نما کیمپوں میں حراست میں رکھا ہے۔ اس اقدام کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک تقریباً 13 لاکھ مسلمانوں کے ذہن بدلنے کے لیے انھیں کیمپوں میں رکھا ہے۔