ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے نئے قانون کے نفاذ کے بعد انتخابات طئے تھے، لیکن چیف ایگزیکٹو کیری لام نے اعلان کیا ہے کہ اسے ایک برس کے لئے ملتوی کردیا ہے۔ جس کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر احجتاج شروع ہوگئے۔
ہانگ کانگ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ 'ان کے جمہوری حقوق اور خاص کر ووٹنگ کے حق کو ختم کیا جارہا ہے۔ جب انتخابات پہلے سے طئے تھے تو اسے ملتوی کیوں کیا گیا؟'
ناقدین نے کہا ہے کہ موجودہ چینی حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر ووٹنگ کا عمل شیڈول کے مطابق آگے بڑھے اور انتحابات کرائیں جائیں تو حزب اختلاف کو نشستیں حاصل ہوجائیں گی اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوسکتی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ 'ہانگ کانگ کی مقننہ کے لئے انتخابات ملتوی کرنے کے حکومت کے فیصلے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں گزشتہ روز تقریبا 290 افراد کو گرفتار کیا گیا'۔
مظاہرہ میں شامل لیونگ کوک ہنگ کا کہنا ہے کہ 'میں اپنا حق رائے دہی چاہتا ہوں!' وہ مظاہرہ کے دوران مسلسل یہ نعرہ بھی لگارہے تھے۔ جنھیں بعد میں پولیس نے گرفتار کرلیا۔
چیف ایگزیکٹو کیری لام نے کورونا وائرس کے معاملات مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک بہانہ ہے۔ اگر انتخابات کرائیں جائیں تو برسراقتدار حکومت کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے۔
محکمہ پولیس نے بتایا ہے کہ 'ایک خاتون کو یؤ ما تیئی کے ضلع کلون میں حملہ اور آزادی کے نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ قومی سلامتی کے نئے قانون کے تحت ایسے نعرے لگانا غیر قانونی ہے'۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس ہی سے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوچکے تھے۔ جب چینی حکومت نے ہانگ کانگ میں 'مجوزہ حوالگی کا قانون' کو نافذ کردیا۔ جس کے مطابق ہانگ کانگ کا کوئی بھی شہری حکومت کی تنقید کریں تو اسے چین میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔
ہانگ کانگ میں 'مجوزہ حوالگی کا قانون' کے نفاذ کے بعد ہی سے مظاہرین کا مسلسل مطالبہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جمہوری انداز میں اور شفاف طریقے سے انتخابات کرائیں جائیں۔
جس کے بعد سے ہی ہانگ کانگ اور چین کی پولیس مظاہرین کو 'حکومت مخالف سرگرمیوں' کے الزام میں گرفتار کررہی ہے۔
کورونا وائرس اور سخت سکیورٹی کے بعد اس قانون کے خلاف مظاہروں کو کم کردیا گیا، لیکن چھوٹے گروپ اب بھی وقتا فوقتا سڑکوں پر نکلتے رہتے ہیں۔