شیخ حسینہ کیلئے دونوں ممالک کے تعلقات کے بیچ گرم جوشی کو قائم رکھنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔انکی حکومت بھارتی شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے بھی بہت پریشان ہے،جو پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی اپنی اقلیتوں پر ظلم کرنے والے ممالک کے طور الگ کرتا ہے۔
مارچ کی ابتدأ میں کووِڈ19- کی وبأ نے بھارت اور ساری دنیا کو گھیر لینے کے ساتھ ہی بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی نے ’’پہلے پڑوسی‘‘ کی اپنی پالیسی کو فروغ دینے کا انتخاب کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے وبأ کے مشترکہ ردِ عمل کی خاطر بڑی حد تک ناکارہ ہوچکے ساوتھ ایشئن ایسوسی ایشن آف ریجنل کواپریشن (ایس اے اے آر سی) یا سارک کے فورم کی بحالی کی اور یہاں تک کہ ایک فنڈ قائم کرنے کے علاوہ پڑوسیوں کے ساتھ موجودہ صورتحال میں ممکنہ اقدامات پر صلاح مشورہ کیا۔
جوں جوں بھارت میں کووِڈ19- کے معاملات بڑھ رہے ہیں ایسی صورتحال میں بھارت پوری دنیا میں اس بیماری کے شکار لوگوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر آگیا ہے جس کے بارے میں نئی دہلی نے نہ تصور کیا تھا اور نہ اسکی توقع کرسکتی تھی۔مالدیپ کے علاوہ ساوتھ ایشئن ایسوسی ایشن فار ریجنل کواپریشن (ایس اے اے آر سی) سے منسلک بھارت کے دیگر پڑوسی بڑی حد تک تدارکِ وبأ کی نئی دلی کو کوششوں سے ہی نہیں بلکہ علاقائی تعلقات کو بنائے رکھنے کے اسکے اقدامات سے بھی مرعوب و متاثر ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔بلکہ یہ ممالک اپنی ترقیاتی ضرورتوں کیلئے بیجنگ کی جانب دیکھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔نئی دلی کیلئے باالخصوص یہ بات زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جس طرح بھارت- بنگلہ دیش تعلقات،جو خاص طور سے میری ٹائم اور لینڈ بونڈری ایگریمنٹ کے تحت دونوں ممالک کے نوکدار مسائل کے حل ہونے کے بعد گذشتہ پانچ سال میں بہت دوستانہ ہوگئے تھے، کا ’’سونار ادھیائے‘‘ یا ’’سنہری باب‘‘ نہایت ہی تیزی کے ساتھ ختم ہوتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے ساتھ ایسی صورتحال پر نئی دلی کی تشویش ظاہر ہے اور اس کا اندازہ اس کے ڈھاکہ میں اپنی سفیر ریوا گانگولی داس کو ،انکے محض 16 ماہ قبل ہی وہاں چلے جانے کے باوجود،واپس بلا کر انکی جگہ نئے سفیر کو بھیجنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ظاہری طور پر ریوا گانگولی داس سکریٹری رینک پر انکی ترقی کی وجہ سے واپس آئی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارتی سفیر کا اثرو رسوخ محض افسر کی رینک تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک اعلیٰ سیاسی تعیناتی ہے یہاں تک کہ ڈھاکہ میں اکثر سینئر ترین سفارتکاروں کو بھیجا جاتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے وقت سے ہی ڈھاکہ میں بھارتی سفیر قابلِ رشک رسائی کے ساتھ نہایت اہم شخص رہے ہیں۔بنگلہ دیش کے لئے بھارتی سفرأ،باالخصوص بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے دور میں،ہمیشہ ہی ڈھاکہ میں اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک قریبی رسائی رکھتے آئے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیشی سفرأ،تازہ ترین مثال سابق سفیر سید معظم علی کی ہے، نئی دلی میں مودی سرکار اور اس سے پہلی کی سرکاروں تک بہترین رسائی رکھتے آئے ہیں لیکن سفرأ کی اس بہترین پہنچ کی جڑ دونوں راجدھانیوں کی سیاسی قیادت کے آپسی تعلقات کی نوعیت میں ہوتی ہے۔سیاسی قیادت کے یہ تعلقات ڈھاکہ میں گذشتہ ایک سال کے دوران کافی بد مزہ ہوچکے ہیں۔یہ سب نہ صرف سرکاری سطح پر ہوا ہے بلکہ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے بنگلہ دیشیوں کے خلاف بیانات دینے اور انہیں دیمک کہنے سے عام بنگلہ دیشی ناراض ہیں اور شیخ حسینہ کیلئے دونوں ممالک کے تعلقات کے بیچ گرم جوشی کو قائم رکھنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔انکی حکومت بھارتی شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے بھی بہت پریشان ہے،جو پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی اپنی اقلیتوں پر ظلم کرنے والے ممالک کے طور الگ کرتا ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان نہایت ہی جذباتی اور ثقافتی تعلقات میں فرقہ وارانہ رنگ ڈالنا بنگلہ دیش کو اچھا نہیں لگا ہے۔ سارک ممالک میں سب سے بڑا ، سالانہ 10 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا معاشی تعلق، بھارت کے اکثریتی رجحانات کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور اس سے وہاں بھارت پر سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ دونوں ممالک کے ان پریشان کُن تعلقات کا اظہار ریوا گانگولی داس کے چار ماہ سے زیادہ عرصہ کیلئے کوششیں کرنے کے باوجود بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے ساتھ ملاقات نہ کر پانے سے ہوا ہے حالانکہ اس سے قبل ڈھاکہ کی نئی دلی کے تئیں ایسی بے توجہی کبھی سُننے میں بھی نہیں آئی ہے۔حالانکہ ریوا گانگولی داس،جو اس سے قبل کلچرل کونسلر کے طور ڈھاکہ میں خدمات سر انجام دے چکی ہیں،شیخ حسینہ کی زبردست انتخابی کامیابی کے فوری بعد مارچ 2019 میں ان توقعات کے ساتھ ڈھاکہ بھیجی گئی تھیں کہ ملک میں اپنے سابق تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لیجا سکیں گی۔انہوں نے بنگلہ دیش میں ہرش وردھن شنگلا،جو اب بھارت کے خارجہ سکریٹری ہیں،سے سفیر کا چارج لیا تھا لیکن ان سے وابستہ توقعات پورے نہیں ہوپائے، یہاں تک کہ ریوا گانگولی داس کی جگہ اب وکرم دوریسوامی کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی ایک کیرئر ڈپلومیٹ ہیں جنکی وزیرِ خارجہ سبھرامنیم جئے شنکر اس امید کے ساتھ بڑی قدر کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں جذباتی گرم جوشی اور کثیر الجہتی سرگرمی کو بحال کرینگے۔
بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کی بحالی کیلئے اسے،دو طرفہ میری ٹائم تعلقات کے محض ایک ہفتہ بعد کنٹینر کارگو کے ذریعہ کولکتہ سے چٹوگرام (چٹاگونگ) بندرگاہ کے راستے اگرتلہ پہنچنے والے پہلے جہاز میں، 10 براڈ گیج انجنوں کی فراہمی کے جیسی بھارتی کوششیں چین کی اس بھاری امداد کے سامنے پھیکی پڑ گئی ہیں، جو بیجنگ نے بنگلہ دیش کی ترقی کیلئے حال ہی میں ڈھاکہ کو فراہم کی ہے۔
اکتوبر 2019 میں شیخ حسینہ کے دورۂ بھارت کے دوران بھارت کی جانب سے قرضوں کے ساتھ ساتھ انہیں پیشکش کئے گئے امدادی پروگرام کے ایک حصہ کے بطور بنگلہ دیش میں بھارت کے جو ’’کنیکٹیوٹی پروجیکٹس‘‘ ہیں وہ اس سیاسی خسارے کی تلافی کرنے کیلئے کافی نہیں ہو سکتے ہیں، جس نے ڈھاکہ کو اپنی اہم ضروریات کیلئے نئی دلی کی بجائے بیجنگ کی جانب دیکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ان میں نہایت حساس بے آف بنگال کی گشت کیلئے کواکس بازار کے پیکاوا میں جدید ترین آبدوز کا اڈہ بنانے سے لیکر بنگلہ دیش کی بحریہ کو دو آبدوز فراہم کرنے اور اہم ترین بھارت کے شمال مشرق کے لئے ، بیجنگ اربن کنسٹرکشن گروپ لمیٹڈ کا آسام کی سرحد سے ملنے والے سلہٹ کے بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر ایک نئے ٹرمینل کی تعمیر کا ٹھیکہ شامل ہے۔
بنگلہ دیش کیلئے مسلسل امداد کئی شمال مشرقی ریاستوں میں شورشوں کے خاتمہ کا سبب بنی ہے لیکن اب جبکہ تعلقات اس حد تک خراب ہو رہے ہیں، کہ شیخ حسینہ پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر تک بات چیت کرنے لگی ہے،بھارت کو انتہائی مشکلات صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے اقتصادی بحالی کی اسکی کوششوں کو مزید دھچکہ لگ سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے بیچ آرہی دوریوں کا اثر دونوں ممالک کے سرکاری بینات تک میں ظاہر ہونے لگا ہے۔بنگلہ دیش کے وزیرِ اطلاعات حسن محمود نے کثیرالجہتی دو طرفہ تعاون کی بات کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’بھارت نے اپنی آزادی کے بعد سے ہی بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالنا جاری رکھا ہے‘‘۔’’خود مختاری کی عظیم جنگ میں اسکے تاریخی کردار کیلئے اسکا شکریہ بجا لایا جانا چاہیئے‘‘۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کی کشمیر پر بات چیت پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو ’’آزمودہ اور تاریخی‘‘ قرار دیا اور ڈھاکہ کے اس موقف کی تعریفیں کیں کہ جموں کشمیر بھارت کا ’’اندرونی معاملہ‘‘ ہے۔
پاکستان -بنگلہ دیش مذاکرات میں کشمیر کا تذکرہ بھارت کیلئے اچھی بات نہیں ہے کیونکہ چین بدستور توازن کو تبدیل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔کیا ’’شاندار ماضی‘‘ کی دہائیاں دینا بنگلہ دیش کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بچانے اور انہیں فروغ دینے کیلئے کافی ہوسکتا ہے؟یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔