ETV Bharat / international

برطانیہ میں ایک باحجاب مسلم خاتون موضوع بحث کیوں بن گئیں؟

author img

By

Published : May 28, 2020, 5:31 PM IST

انہوں نے اس سلسلے میں مسلم خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں کی تمام مسلم خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ہر کام کر سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ دیانت داری اور محنت سے کام کریں۔

sdf
sd

برطانیہ کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا موقع ہے جب ایک باحجاب مسلم خاتون نے بطور جج حلف لیا ہو۔ 40 سالہ رافعہ ارشد نے وہ کام کر دکھایا، جو آج تک کسی خاتون نے نہیں کیا تھا۔

وکالت کے پیشے سے 17 برس کی وابستگی کے بعد گذشتہ ہفتے انہوں نے لندن کے ضلعی عدالت میں جج کے طور پر حلف لیا۔ اس طرح وہ یو کے کی پہلی با حجاب خاتون جج بن گئیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں مسلم خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں کی تمام مسلم خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ہر کام کر سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ دیانت داری اور محنت سے کام کریں۔

برطانیہ کے 'میٹرو' نامی ایک پورٹل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے رافعہ نے کہا کہ وہ برطانیہ کی کثیر الجہات ثقافت کی نقیب بننا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ برطانوی معاشرے کے ساتھ ہی پوری مغرب دنیا میں ان کی آواز سنی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ معاملہ میری شناخت سے بھی بڑا ہے۔ یہ صرف خواتین کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ہر ایک کی آزادی رائے اور ثقافتی کلچر سے منسلک معاملہ ہے۔

انہوں نے اپنے سترہ سالہ وکالتی سفر کے دوران اپنے ساتھ ہونے والے تعصب اور نسلی امتیازات کی بھی بات کہی۔

رافعہ ارشد کی پرورش برطانیہ کے دارلحکومت لندن سے 2 سو میل دور شمال کی جانب یارک شائر نامی ایک علاقے میں ہوئی اور وہیں سے انہوں نے لاء میں گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کی۔ لاء کرنے کے بعد رافعہ نے فیملی اور بچوں کے کیسز میں مہارت حاصل کی۔ سنہ 2004 میں انہیں 'سینٹ میریج فیملی لاء چیمبرز' کی رکنیت بھی دی گئی۔

انہوں نے اسلامی خاندانی نظام پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ' اسلامک فیملی لاء' ہے۔ مسلم مسائل کے سماعت کے دوران ججز اس کتاب کے حوالے استعمال کرتے ہیں۔

برطانیہ کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا موقع ہے جب ایک باحجاب مسلم خاتون نے بطور جج حلف لیا ہو۔ 40 سالہ رافعہ ارشد نے وہ کام کر دکھایا، جو آج تک کسی خاتون نے نہیں کیا تھا۔

وکالت کے پیشے سے 17 برس کی وابستگی کے بعد گذشتہ ہفتے انہوں نے لندن کے ضلعی عدالت میں جج کے طور پر حلف لیا۔ اس طرح وہ یو کے کی پہلی با حجاب خاتون جج بن گئیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں مسلم خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں کی تمام مسلم خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ہر کام کر سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ دیانت داری اور محنت سے کام کریں۔

برطانیہ کے 'میٹرو' نامی ایک پورٹل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے رافعہ نے کہا کہ وہ برطانیہ کی کثیر الجہات ثقافت کی نقیب بننا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ برطانوی معاشرے کے ساتھ ہی پوری مغرب دنیا میں ان کی آواز سنی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ معاملہ میری شناخت سے بھی بڑا ہے۔ یہ صرف خواتین کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ہر ایک کی آزادی رائے اور ثقافتی کلچر سے منسلک معاملہ ہے۔

انہوں نے اپنے سترہ سالہ وکالتی سفر کے دوران اپنے ساتھ ہونے والے تعصب اور نسلی امتیازات کی بھی بات کہی۔

رافعہ ارشد کی پرورش برطانیہ کے دارلحکومت لندن سے 2 سو میل دور شمال کی جانب یارک شائر نامی ایک علاقے میں ہوئی اور وہیں سے انہوں نے لاء میں گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کی۔ لاء کرنے کے بعد رافعہ نے فیملی اور بچوں کے کیسز میں مہارت حاصل کی۔ سنہ 2004 میں انہیں 'سینٹ میریج فیملی لاء چیمبرز' کی رکنیت بھی دی گئی۔

انہوں نے اسلامی خاندانی نظام پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ' اسلامک فیملی لاء' ہے۔ مسلم مسائل کے سماعت کے دوران ججز اس کتاب کے حوالے استعمال کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.