عراق میں شدت پسند تنظیم 'داعش' کی شکست کے تین برس بعد، نینوا کی زرخیز زمینوں میں کسان جدوجہد کر رہے ہیں۔
سعیر محمد ہمیشہ سے ہی کسان رہے ہیں۔ نینوا میں محض ان کی زمین ہی آمدنی کا ذریعہ ہے، لیکن سعیر کی زمین اب اتنی پیداوار نہیں رہی جیسی کبھی ہوا کرتی تھی۔
سنہ 2017 میں داعش کے خلاف ہونے والے آپریشن کے سبب علاقے کے دیگر کسانوں کو اپنی زمینیں خالی چھوڑ دینی پڑی تھیں۔ اب جب وہ واپس آگئے ہیں تو، انہیں اپنی زرعی پیداوار کو بحال کرنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔
عراقی کسان سعیر محمد کا کہنا ہے کہ بہت ساری زمینیں خالی چھوڑ دی گئی ہیں۔کیو نکہ لوگوں کے پاس بیج یا کھاد خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ جو لوگ تین برس بعد واپس آئے ہیں، انہیں اپنے مکانات تباہ حالت میں ملے، اور انہیں امداد دینے والا کوئی نہیں ہے۔
عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن' کی رپورٹ میں اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے، کہ سنہ 2014 اور 2017 کے دوران عراق کی زرعی صلاحیت میں 40 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
کسانوں کو شکایت ہے کہ انہیں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے کوئی تعاون نہیں مل رہا ہے۔
نینوا کے رہنے والے کسان صدام احمد نے بتایا کہ ان کا علاقہ کھیتی کے لیے بہت موضوں ہے، لیکن بہت سارے کسان اپنی زمین پر بارود کے ڈر سے کھیتی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اور اس سلسلے میں حکومت اور تنظیمیں کوئی بھی مدد نہیں کر رہی ہیں۔
تیل افار اور تیل کیف علاقے میں تقریبا 13 لاکھ ایکرز کی زمینیں بارودی سرنگوں کی زد میں ہیں۔ اور لوگوں کا الزام ہے کہ حکام کے پاس بارود صاف کرنے کی صلاحیت ہے، اور نہ ہی وسائل ہیں۔
دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ عراقی انتظامیہ ان خطرات سے کیسے نمٹتی ہے، اور ان زرخیز زمینوں کا استعمال کب تک ممکن بناتی ہے۔