لڑکیوں کی تعلیم کے ضمن میں آپ نے ملالہ یوسف زئی کا نام تو سنا ہی ہوگا، لیکن آج ہم ایک اور ملالہ یوسف زئی سے آپ کو واقف کروائیں گے۔ جو پاکستان کے صوبہ سندھ میں کم عمر بچوں کو تعلیم فراہم کرا رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کا عزم اور ارادہ بلند ہو تو وہ ہزاروں مجبوریوں کے باوجود بھی اپنے مقصد کو پا لیتا ہے۔
سندھ کی آسو بائی کوہلی جسمانی طور پر معذور ہیں، لیکن مقصد کی بلند پروازی کبھی بھی انہیں پست ہمت نہیں کرتی۔
یہی وجہ ہے کہ پیروں سے معذور ہونے کے باوجود بھی آسو بائی کوہلی اسکول تک پہنچ کر طلبا کو پڑھاتی ہیں۔
لوگ انھیں سندھ کی ملالہ یوسف زئی کہتے ہیں، لیکن آسو بائی کوہلی ھی کا استانی بننے کا سفر بہت مشکل رہا۔
وبائی مرض اور جسمانی معذوری کے باوجود کوہلی ابھی بھی اپنے غریب طبقے میں بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے پرعزم ہیں۔
آسو بائی ہندو برادری کے کوہلی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور اپنے کنبے کے تعاون سے پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں۔
آسو بائی کوہلی کہتی ہیں کہ 'میں معذور ہوں اور اسکول تک پہنچنے کے لئے لکڑی کا یہ ڈنڈا ہی میرے لیے واحد سہارا ہے'۔
انھوں نے بتایا ہے کہ 'مجھے اپنے ماضی کا ایک دن یاد ہے جب میں اسکول جا رہی تھی، ایک عورت نے میری لکڑی کی لاٹھی چوری کی اور اسے پھینک دیا۔ میں نے اپنے والد کو اس واقعے کے بارے میں بتایا لیکن والد نے مجھے بتایا کہ کبھی ہار نہیں ماننا چاہیے'۔
ان کا کہنا ہے کہ دو برس کی عمر میں انھیں ناقص دوا دی گئی جس کا ان پر منفی اثر پڑا اور وہ معذور ہوگئیں۔
آج وہ اپنے علاقے کے پسماندہ بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے پرعزم اور مصروف کار ہے۔
آسو بائی کولھی کہتی ہیں کہ 'یہاں آنے والے طلبا انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان خاندانوں میں لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی کے لئے وسائل نہیں ہیں، اسی وجہ سے ہم صرف منتخب طلبہ کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں'۔
انہیں امید ہے کہ اسکول کھلے رہیں گے ، تاکہ بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔
آسو بائی کولھی کے ایک شاگرد کا کہنا ہے 'جب اسکول بند کردیئے گئے تو میں نے اپنے والد کے ساتھ فیلڈ میں کام کرنا شروع کیا۔ اب اسکول کھلے ہیں تو میں بہت خوش ہوں'۔
طالب علم نے کہا ہے کہ 'ہمارے استاد آسو ہمیں ماسک مہیا کراتی ہیں اور ہمارے ہاتھوں کو صاف بھی کرتی ہیں'۔
نوجوان خواتین کو تعلیم دینے کے لئے کوہلی کے لگن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سندھ کی پارلیمنٹ نے انہیں سندھ کی ملالہ یوسف زئی کا خطاب دیا، جو خواتین کی تعلیم کے لئے مشہور پاکستانی کارکن ہیں۔
سنہ 2019 میں شائع ہونے والی وبائی امور کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں 5 سے 16 برس کی عمر کے 23 ملین بچے اسکول نہیں گئے، جو اس عمر کے مجموعی آبادی کا 48 فیصد ہے۔
کوہلی کی اس بلند ہمتی سے طلبا کا مستقبل اور سنہرا بن سکے گا۔