ETV Bharat / international

یہ بھی گھر ہے

کبھی مسافروں کو ان کے منزلوں تک پہنچانے والی بس فی الحال مہاجر بچوں کے لیے عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Sep 18, 2019, 5:40 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 2:16 AM IST

کبھی مسافروں کو ان کے منزلوں تک پہنچانے والی بس فی الحال مہاجر بچوں کے لیے عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

یہ بھی گھر ہے

ترکی کی سرحد سے دور شمال مشرقی شام کے گاؤں بيرة أرمناز کے قریب ام عمار نامی خاتون اور ان کے سات بچے اسی خستہ حال بس میں گذشتہ تنن مہینوں سے رہ رہے ہیں۔

عمار کا کہنا ہے کہ وہ حماۃ شہر کے مغربی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔ وہاں ہونے والی گولہ باری کے دوران دیگر خاندانوں کی طرح انہیں بھی گھر چھوڑنا پڑا۔

وہ ادلب کی طرف جا رہی تھیں، تبھی انہیں ایک بس نظر آئی۔ اجازت حاصل کرنے کے بعد اسے دھوکر صاف کیا اور انہوں نے اسی بس کو عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

خستہ حالی کا شکار بس سڑک کے لائق تو نہیں رہی، لیکن اس کے باوجود اب بھی کسی نہ کسی طرح مفید ضرور ہے۔

اس کی کھڑکیوں پر شیشے تو نہیں ہیں، تاہم ان کی جگہ ہواوں سے روکنے کے لیے چادروں کا استعمال ہو رہا ہے۔

کھڑکی کے تختے زنگ آلود ہیں۔ اور انجن کے پرزے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ لیکن یہی سب اب ان بچوں کے لیے کھیل کے سامان ہیں۔ انہیں اسٹیئرنگ گھمانا اصلی اسٹیئرنگ گھمانے جیسا لگتا ہے۔

تاہم انہیں معلوم ہے کہ یہ زیادہ دنوں تک آرام دہ اور پرسکون جگہ نہیں ہوگی۔

ام عمار کی بیٹی مریم کا کہنا ہے کہ ایک درخت کے نیچے تین دنوں تک رہنے کے دوران انہیں رہنے کے لیے یہ بس ملی تھی۔ لیکن اب سردیوں کا موسم آرہا ہے، اور بس میں کھڑکیاں نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں رہنا ممکن نہیں ہے۔

شامی فوج کی جانب سے ادلب اور حماۃ کے علاقوں میں رواں برس اپریل ماہ سے ہی کارروائی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں تقریبا 5 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

بے گھر ہونے والوں میں سے بہت سے لوگ اب ترکی کی سرحد کے قریب خیموں اور غاروں میں رہنے کو مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر مشیل بچیلٹ نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ 29 اپریل سے 29 اگست کے درمیان شام میں 1 ہزار 89 شہری ہلاک ہوئے تھے، جن میں 304 بچے بھی شامل تھے۔

کبھی مسافروں کو ان کے منزلوں تک پہنچانے والی بس فی الحال مہاجر بچوں کے لیے عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

یہ بھی گھر ہے

ترکی کی سرحد سے دور شمال مشرقی شام کے گاؤں بيرة أرمناز کے قریب ام عمار نامی خاتون اور ان کے سات بچے اسی خستہ حال بس میں گذشتہ تنن مہینوں سے رہ رہے ہیں۔

عمار کا کہنا ہے کہ وہ حماۃ شہر کے مغربی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔ وہاں ہونے والی گولہ باری کے دوران دیگر خاندانوں کی طرح انہیں بھی گھر چھوڑنا پڑا۔

وہ ادلب کی طرف جا رہی تھیں، تبھی انہیں ایک بس نظر آئی۔ اجازت حاصل کرنے کے بعد اسے دھوکر صاف کیا اور انہوں نے اسی بس کو عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

خستہ حالی کا شکار بس سڑک کے لائق تو نہیں رہی، لیکن اس کے باوجود اب بھی کسی نہ کسی طرح مفید ضرور ہے۔

اس کی کھڑکیوں پر شیشے تو نہیں ہیں، تاہم ان کی جگہ ہواوں سے روکنے کے لیے چادروں کا استعمال ہو رہا ہے۔

کھڑکی کے تختے زنگ آلود ہیں۔ اور انجن کے پرزے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ لیکن یہی سب اب ان بچوں کے لیے کھیل کے سامان ہیں۔ انہیں اسٹیئرنگ گھمانا اصلی اسٹیئرنگ گھمانے جیسا لگتا ہے۔

تاہم انہیں معلوم ہے کہ یہ زیادہ دنوں تک آرام دہ اور پرسکون جگہ نہیں ہوگی۔

ام عمار کی بیٹی مریم کا کہنا ہے کہ ایک درخت کے نیچے تین دنوں تک رہنے کے دوران انہیں رہنے کے لیے یہ بس ملی تھی۔ لیکن اب سردیوں کا موسم آرہا ہے، اور بس میں کھڑکیاں نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں رہنا ممکن نہیں ہے۔

شامی فوج کی جانب سے ادلب اور حماۃ کے علاقوں میں رواں برس اپریل ماہ سے ہی کارروائی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں تقریبا 5 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

بے گھر ہونے والوں میں سے بہت سے لوگ اب ترکی کی سرحد کے قریب خیموں اور غاروں میں رہنے کو مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر مشیل بچیلٹ نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ 29 اپریل سے 29 اگست کے درمیان شام میں 1 ہزار 89 شہری ہلاک ہوئے تھے، جن میں 304 بچے بھی شامل تھے۔

Intro:Body:

sdfghsgh


Conclusion:
Last Updated : Oct 1, 2019, 2:16 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.