افغانستان کے صدر اشرف غنی نے جمعہ کے روز کہا کہ حکومت کو موجودہ چیلنجوں کے باوجود طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی امید ہے۔
اشرف غنی نے ازبکستان کے دارالحکومت میں وسطی اور جنوبی ایشین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اس وقت ہمارے سامنے آنے والی رکاوٹوں کے باوجود ہم طالبان سے مذاکرات کے لئے تمام اقدامات کریں گے اور ان کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔ حالیہ مہینوں میں بہت سارے دہشت گرد پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں اور طالبان نے یہ پیش کی ہے کہ یا تو ان کی طرف آجائیں یا ہتھیار ڈال دیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مبصرین میں اتفاق رائے کے باوجود انہوں نے امداد فراہم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اس سے قبل یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک اعلی سطحی وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیجنے پر راضی ہے۔
اس میں سابق صدر حامد کرزئی اور قومی مفاہمت کی اعلی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبد اللہ شامل ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Ceasefire in Afghanistan: طالبان مشروط جنگ بندی پر آمادہ
اہم بات یہ ہے کہ اس ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد سے ہی طالبان نے افغانستان کے 85 فیصد سے زیادہ حصے پر کنٹرول کا دعویٰ کیا ہے اور فوجیوں پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
(یو این آئی)