ایک رپورٹ، جس میں کووڈ اموات کے ساتھ ساتھ ان ممالک کا تجزیہ کیا گیا جہاں لوگ زیادہ تر موٹاپے کا شکار ہیں، کے مطابق 90 فیصد اموات کا تعلق اس وبا سے ہے۔ فروری 2021 کے آخر تک 25 لاکھ کووڈ اموات ریکارڈ کی گئیں جبکہ 2.2 ملین اموات ایسے ممالک میں ہوئیں جہاں آبادی کا زیادہ تر حصہ موٹاپے کا شکار ہے۔
دنیا بھر میں طبی ماہرین کی جانب سے مہینوں سے یہ جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے کہ آخر کچھ کورونا وائرس کے نتیجے میں کچھ ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ کیوں ہے۔ اس حوالے سے مسلسل مختلف خیالات سامنے آتے رہے ہیں، مگر اب ایک رپورٹ میں ایک ٹھوس وجہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مہلک ترین وبا کرونا وائرس نے دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا لیکن کچھ ممالک ایسے تھے، طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں موٹاپے کا شکار افراد کی تعداد زیادہ ہے جیسے برطانیہ اور امریکا۔ ایسے ممالک جہاں موٹاپا سے زتاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہے، وہاں کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاکتوں کی شرح بھی دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کووڈ کے نتیجے میں دنیا بھر میں ہونے والی 25 لاکھ اموات میں سے 22 لاکھ ان ممالک میں ہوئی، جہاں موٹاپے کے شکار افراد کی آبادی زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ میں جہاں 50 فیصد سے زیادہ بالغ افراد کا جسمانی وزن صحت مند سطح سے زیادہ ہے، وہاں کورونا وائرس سے ہلاکتیں بھی زیادہ ریکارڈ ہوئیں۔ وہیں مسئلہ صرف موٹاپے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں جس جسمانی وزن کو معمول کے مطابق یا صحت مند سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی شرح اموات ان ممالک سے 10 گنا زیادہ ہے جن کے شہریوں کی نصف سے زائد آبادی کا جسمانی وزن 18 سے 25 بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) ہوتا ہے۔ اموات کی شرح کا سب سے بڑا عنصر عمر تھی جس کے بعد جسمانی وزن زیادہ ہونا دوسرا بڑا عنصر ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے ڈاکٹر ٹم لوبسٹین جو عالمی ادارہ صحت کے سابق مشیر ہیں، نے کہا کہ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ کسی ملک کی بالغ آبادی کا زیادہ جسمانی وزن اور کووڈ 19 کی اموات کے درمیان تعلق موجود ہے۔
ایک اور تحقیق کے مطابق برطانیہ میں کرونا سے ہونے والی اموات بیلجیئم میں 1930 فی دس لاکھ، 1848 فی دس لاکھ، امریکہ میں 1572 فی دس لاکھ، اٹلی میں 1635 فی دس لاکھ ہیں۔
ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن نے کہا کہ موٹاپے کے حامل افراد کو ویکسینیشن میں ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ ان میں کووڈ سے موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے ممالک جہاں 50 فیصد سے زیادہ بالغ آبادی کا جسمانی وزن صحت مند سطح سے زیادہ تھا، ان میں بیجلئم شرح اموات میں سب سے اوپر ہے، جس کے بعد سلوانیا اور برطانیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھے، جبکہ اٹلی 5 ویں اور امریکا 8 ویں نمبر پرتھے۔ اسی طرح ویت نام میں موٹاپے کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے، اور وہاں کرونا سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی کم ترین ملکوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ویت نام میں زیادہ جسمانی وزن کے مالک افراد کی تعداد 18.3 فیصد ہے جبکہ سب سے کم شرح اموات افریقی ملک برونڈی میں ریکارڈ ہوئی جہاں بالغ آبادی میں اوور ویٹ افراد کی تعداد 22.2 فیصد ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانم گیبریسس نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ عالمی سطح پر حکومتوں کے لیے خواب غفلت سے جگانے کا کام کرسکتی ہے تاکہ وہ موٹاپے اور اس کے نتیجے میں لاحق ہونے والے طبی مسائل کی روک تھام کا کام کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ موٹاپے اور کووڈ 19 سے اموات کی شرح کے درمیان تعلق واضح ہے، موٹاپے کی وجوہات پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ تمام ممالک بہترین طبی نظام کو تشکیل دے سکیں۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ موٹاپا کووڈ 19 سے موت کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کا خطرہ 113 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد کو اکثر مختلف امراض جیسے امراض قلب یا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا سامنا بھی ہوتا ہے، جو کورونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی معلوم کیا گیا کہ موٹاپے کے شکار طبی ورکرز میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد اینٹی باڈیز بننے کی شرح عام وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم تھی۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام ممالک کو چاہیے کہ ویکسینیشن میں موٹاپے کا شکار افراد کو ترجیح دیں۔ ان ملکوں میں کرونا سے ہونے والی اموات دس گنا زیادہ ہیں جہاں آدھی سے زیادہ آبادی موٹاپے کا شکار ہے۔ یہ انکشاف ’کووڈ 19 اور موٹاپا: 2021 اٹلس‘ نامی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایک تجزیہ کے مطابق کوویڈ۔19 کی وجہ سے عالمی سطح پر 2020-21 مالی سال کے دوران 10 ٹریلین ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے۔ وہیں یہ نقصان 2020 تا 2025 کے عرصہ میں 22 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔