ETV Bharat / international

China Taliban Relations: چین نے طالبان کی حمایت کا کیا اعلان

چین نے افغانستان میں ایک اہم فوجی اور سیاسی قوت کے طور پر طالبان کی تعریف کی۔

china pledges support to taliban seeks its support to drive out uyghur militants from afghanistan
china pledges support to taliban seeks its support to drive out uyghur militants from afghanistan
author img

By

Published : Jul 29, 2021, 2:16 PM IST

Updated : Jul 29, 2021, 3:44 PM IST

چین نے بدھ کے روز طالبان کے رہنما ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کی اور افغانستان میں ایک اہم فوجی اور سیاسی قوت کے طور پر شدت پسند گروپ کی تعریف کی۔ اس کے ساتھ ہی چین نے طالبان سے "تمام عسکری گروہوں سے رابطہ توڑنے" کے لئے کہا، خاص طور پر شنجیانگ کے ایغور مسلم انتہا پسند گروپ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) سے رابطے توڑنے کے لئے کہا۔

ای ٹی آئی ایم کے دوبارہ متحد ہونے کے خدشات کے درمیان چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے تیانجن میں ملا برادر سے ملاقات کی۔ چین کا خیال ہے کہ شنجیانگ صوبے اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے تمام پرتشدد حملوں کے پیچھے ای ٹی آئی ایم کا ہاتھ ہے۔ ملاقات کے دوران یی نے برادر سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک مثبت امیج اور ایک وسیع اور جامع سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیں جو افغانستان کی قومی حقیقت کے مطابق ہو۔

ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کے ایک وفد نے بدھ کے روز چین کا اچانک دورہ کیا اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے بات چیت کی۔ مذاکرات کے دوران طالبان نے بیجنگ کو ایک قابل اعتماد دوست قرار دیا اور یقین دہانی کرائی کہ یہ گروپ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان اور چین کے مابین یہ پہلا اجلاس ہے۔ طالبان نے سرکاری افواج کے زیر قبضہ بیشتر علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، جس سے چین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم)، جو اس کے غیر مستحکم صوبہ شنجیانگ سے تعلق رکھنے والا ایک عسکریت پسند گروپ ہے، افغان سرحد کے ذریعے دراندازی کرسکتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے میڈیا بریفنگ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برادر کی قیادت میں ایک وفد بیجنگ کے قریب بندرگاہی شہر تیآنجن میں وانگ سے ملا۔

وزارت نے وانگ کی برادر اور اس کے وفد سے ملاقات کی تصاویر کو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔

اس ملاقات سے کچھ دن پہلے 25 جولائی کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چینگدو شہر میں وانگ سے ملاقات کی تھی اور دونوں ممالک نے اعلان کیا کہ پاکستان اور چین افغانستان میں دہشت گرد قوتوں کو نکالنے کے لئے "مشترکہ کارروائی" کریں گے۔

بدھ کی بات چیت کے دوران وانگ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان اپنے اور ای ٹی آئی ایم کے مابین لائن کھینچ سکتے ہیں، اس سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سازگار صورتحال پیدا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو روکنے کے لیے امریکہ فضائی حملے جاری رکھے گا

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای ٹی آئی ایم کے سینکڑوں عسکریت پسند افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں جمع ہوئے ہیں، جو چین کے غیر مستحکم صوبے شنجیانگ سے ملتا ہے۔ وانگ نے کہا کہ ای ٹی آئی ایم ایک عسکری تنظیم ہے جو علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔ برادر نے کہا کہ چین ایک قابل اعتماد دوست ہے۔

چین نے بدھ کے روز طالبان کے رہنما ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کی اور افغانستان میں ایک اہم فوجی اور سیاسی قوت کے طور پر شدت پسند گروپ کی تعریف کی۔ اس کے ساتھ ہی چین نے طالبان سے "تمام عسکری گروہوں سے رابطہ توڑنے" کے لئے کہا، خاص طور پر شنجیانگ کے ایغور مسلم انتہا پسند گروپ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) سے رابطے توڑنے کے لئے کہا۔

ای ٹی آئی ایم کے دوبارہ متحد ہونے کے خدشات کے درمیان چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے تیانجن میں ملا برادر سے ملاقات کی۔ چین کا خیال ہے کہ شنجیانگ صوبے اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے تمام پرتشدد حملوں کے پیچھے ای ٹی آئی ایم کا ہاتھ ہے۔ ملاقات کے دوران یی نے برادر سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک مثبت امیج اور ایک وسیع اور جامع سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیں جو افغانستان کی قومی حقیقت کے مطابق ہو۔

ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کے ایک وفد نے بدھ کے روز چین کا اچانک دورہ کیا اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے بات چیت کی۔ مذاکرات کے دوران طالبان نے بیجنگ کو ایک قابل اعتماد دوست قرار دیا اور یقین دہانی کرائی کہ یہ گروپ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان اور چین کے مابین یہ پہلا اجلاس ہے۔ طالبان نے سرکاری افواج کے زیر قبضہ بیشتر علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، جس سے چین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم)، جو اس کے غیر مستحکم صوبہ شنجیانگ سے تعلق رکھنے والا ایک عسکریت پسند گروپ ہے، افغان سرحد کے ذریعے دراندازی کرسکتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے میڈیا بریفنگ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برادر کی قیادت میں ایک وفد بیجنگ کے قریب بندرگاہی شہر تیآنجن میں وانگ سے ملا۔

وزارت نے وانگ کی برادر اور اس کے وفد سے ملاقات کی تصاویر کو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔

اس ملاقات سے کچھ دن پہلے 25 جولائی کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چینگدو شہر میں وانگ سے ملاقات کی تھی اور دونوں ممالک نے اعلان کیا کہ پاکستان اور چین افغانستان میں دہشت گرد قوتوں کو نکالنے کے لئے "مشترکہ کارروائی" کریں گے۔

بدھ کی بات چیت کے دوران وانگ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان اپنے اور ای ٹی آئی ایم کے مابین لائن کھینچ سکتے ہیں، اس سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سازگار صورتحال پیدا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو روکنے کے لیے امریکہ فضائی حملے جاری رکھے گا

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای ٹی آئی ایم کے سینکڑوں عسکریت پسند افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں جمع ہوئے ہیں، جو چین کے غیر مستحکم صوبے شنجیانگ سے ملتا ہے۔ وانگ نے کہا کہ ای ٹی آئی ایم ایک عسکری تنظیم ہے جو علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔ برادر نے کہا کہ چین ایک قابل اعتماد دوست ہے۔

Last Updated : Jul 29, 2021, 3:44 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.