ETV Bharat / international

بھارت میں دراندازی کرنے والی شمال مشرقی باغی تنظیموں پر چین کی نگاہ - شمال مشرقی ریاستوں میں متعدد باغی تنظیمیں

شمال مشرقی ریاستوں میں متعدد باغی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ تنظیمیں غیرفعال ہو گئی ہیں مگر اب جب چین نے اپنا مؤقف بدل دیا ہے تو ایسے میں خدشہ ہے کہ ان تنظیموں کو تقویت مل سکتی ہے لہذا حکومت کو اس طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کی اروناچل پردیش کے ساتھ 1126 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ ریاست کے مشرقی حصے کے راستے کو زیادہ تر باغی، میانمار اور پھر چین کے صوبہ یونان میں داخل ہونے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی آسام، منی پور، ناگالینڈ اور میزورم کے باغیوں نے پناہ اور رسد حاصل کرنے کے لئے چینی رہنماؤں سے رابطے قائم کیے تھے حالانکہ چین نے براہ راست ان کی مدد کرنے سے اب تک انکار ہی کیا ہے لیکن اب بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئی فوجی کشیدگی نے چین کو صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا ایک مثالی موقع فراہم کیا ہے۔

بھارت میں دراندازی کرنے والے شمال مشرقی باغی تنظیموں پر چین کی نگاہ
بھارت میں دراندازی کرنے والے شمال مشرقی باغی تنظیموں پر چین کی نگاہ
author img

By

Published : Jul 10, 2020, 4:33 PM IST

بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں ایک طویل عرصے سے پرتشدد تحریکوں کی گواہ رہی ہیں۔ اب جب چین نے جارحانہ رویہ دکھانا شروع کیا ہے تب سے ان شمال مشرقی ریاستوں میں ایک بار پھر باغی جنون کے پیدا ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ چین ان باغی طاقتوں کے ساتھ مل کر انہیں بھڑکانے اور مشتعل کرنے کا کام کر سکتا ہے۔ حکومت کی زیادہ توجہ لائن آف کنٹرول پر مرکوز ہوتی ہے، پاکستان کے ساتھ چین پر بھی مستعدی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

دراصل چین شمال مشرق ریاستوں میں سرگرم باغی تنظیموں کے توسط سے شمال مشرقی سرحد پر مداخلت کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کی جانب سے ایک مکمل جنگ کو غیر متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

حالانکہ بھارت کو ہمیشہ ایسی چھوٹی موٹی جدوجہد کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ان کا مقابلہ کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔اس بات کے بھی امکان ہے کہ چین بھارت کو پریشان کرنے کے لیے ایسی ہلکے پھلکے چھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

چین کی اروناچل پردیش کے ساتھ 1126 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ ریاست کے مشرقی حصے کے راستے کو زیادہ تر باغی میانمار اور چین کے صوبہ یونان میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ماضی میں بھی آسام، منی پور، ناگالینڈ اور میوزم کے باغیوں نے پناہ اور رسد کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے چینی لیڈروں کے ساتھ رابطے میں تھے، حالانکہ چین نے اب تک ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔لیکن بھارت کے ساتھ بڑھتے فوجی کشیدگی نے چین کو اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔

آسام

مشرقی لداخ کے مختلف مقامات پر بھارتی فوج اور چین کے پی ایل کے مابین جاری تناؤ کے درمیان پریش باروہ کی زیر قیادت والی یونائیڈیٹ لبریشن فرنٹ آٖف آسام(الفا آئی) نے اس ہفتہ 17 منٹ کا ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے چین کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ الفا(آئی) نے سنہ 1962 کے تنازعے کے بعد سرعام بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ پی ایل اے نے کبھی بھی کسی بھی دیسی آسامی کو نقصان نہیں پہنچایا ہے، بلکہ اس کے برعکسی چین نے مقامی کاشتکاروں کو زرعی کاموں میں مدد فراہم کی تھی۔


الفا کی چین کے ساتھ وابستگی کئی دہائیوں پرانی ہے۔ ایک زمانے میں آسام کے بڑے باغی تنظیموں نے یونان کے صوبائی نمائندوں کے ساتھ مل کر فوج اور فوجی مدد کا مطالبہ کیا تھا۔

وہیں یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ باروہ خود چین کے صوبہ دہونگ کے ایک کاؤنٹی شہر رولی کے سرحدی علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ویسے یہ دوسری بار ہوسکتا ہے کہ الفا(آئی) نے چین کی کھل کر حمایت کی ہے۔الفا نے آخری مرتبہ مارچ 2012 میں چین کی حمایت کی تھی، جب کالعدم تنظمیوں نے تبت کارکنوں اور ان کے حامیوں کے ذریعہ آسام کے اس وقت کے چین مخالف مظاہروں کی سخت تنقید کی تھی۔اس دوران تنظیموں نے کہا تھا کہ جلاوطن تبتی اسٹبلیشنمنٹ نے گزشتہ تین دہائیوں میں کبھی بھی آسام میں ہورہے ظلم اور انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی۔

اطلاع کے مطابق الفاع(آئی ) بھارت اور میانمار سرحد کے قریب جنگلوں میں موجود کیمپوں میں تقریبا سو سے زائد جنگجؤ نے پناہ لے رکھی ہے۔یہاں سے چین کی سرحد تک پہنچنے کے لیے صرف ایک دن کا سفر طئے کرنا پڑتا ہے۔یہ تنظیم امن مذاکرات کی مخالفت کرتی آرہی ہے۔ساتھ ہی آزاد آسام کے اپنے مطالبے پر قائم ہے۔

دوسری جانب حکومت اور الفا کے ایک گروہ کے مابین گزشتہ 15 برس سے جاری بات چیت سے اب تک کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے ریاست میں متعدد لوگوں کو بے چینی ہے۔

ناگا

ناگا، جو شمال مشرق کی چار ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ناگا نے وہاں بغاوت کی تحریک کو شروع کیا۔اس تحریک سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں سے ایک چین بھی ہے۔واضح رہے کہ چین وہ پہلا ملک تھا جس نے ناگا تحریک کو اپنی حمایت دی ۔

صرف یہی نہیں ، چین نے ناگا تحریک سے وابستہ پہلے بیچ کے 133 ناگا باغیوں کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نظریاتی ٹیسٹ بھی دیئے۔

واضح رہے کہ ناگا تحریک کو دنیا کا دوسرا قدیم ترین انتہا پسندی تحریک سمجھا جاتا رہا ہے۔اس علاقے میں ناگا تحریک کو 'تمام عسکریت پسندوں کی ماں' کہا جاتا ہے۔ناگا معاملے پر حکومت کے ساتھ جاری طویل بات چیت کے 23 برس بعد بھی کوئی حتمی حل نہیں دیکھائی دے رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے، ا سے ناگاؤں کے درمیان کافی مایوسی بھی ہے۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت کو چھوڑنے والے این ایس سی این(آئی ایم) کے ذریعہ میانمار میں نئے کیمپ لگائے گئے ہیں۔

سنہ 2015 میں ، حکومت ہند اور این ایس سی این (آئی ایم) کے مابین فریم ورک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بہت سی توقعات پیدا ہوئی تھی ، لیکن اس کے بعد کوئی حقیقی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔اس کے بعد رواں سال 14 فروری کو منی پور کے اکھرول میں این ایس سی این(ائی ایم) کے ایک ہاٹ بیڈی میں تقریبا 2 ہزار ناگوں نے وہاں میں کورونا وائرس کے بحران کے خلاف چین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک کنسرٹ کا انعقاد کیا۔یہ بھارتی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے انتہائی تشویشناک علامت ہے۔

میزورم

گزشتہ برس میزورم کے دارالحکومت آئیزول میں شہریت ترمیمی بل(سی اے بی) کےخلاف مظاہرین کے ایک گروپ کی قیادت کرنے والے میزورم کے سابق وزیراعلی نے' ہلیو چائنا' کہتے ہوئے ایک بینر دیکھایا تھا جو ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

واضح رہے کہ میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) نے ساٹھ کی دہائی میں پہاڑیوں کے درمیان بغاوت کی تحریک کی قیادت کی تھی۔

منی پور
منی پور میں سب سے زیادہ باغی تنظیمیں موجود ہیں۔ یہاں تقریبا 50 باغی تنظیمیں ہیں۔ روزگار جیسے مسائل سے دوچار اس ریاست میں شورش نوجوانوں کے لئے بغاوت کرنا زندگی کا ایک طریقہ بن گیا ہے۔

کمیونسٹ عقائد کی پیروی کرنے والی متعدد طاقتور میٹی تنظیموں کے لئے یہ قدرتی چیز ہے کہ وہ چین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان باغیوں کی بہت سی تنظیموں کو چین کی نمایاں حمایت حاصل تھی۔ چین یہاں کی مضبوط باغی تنظیموں سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

نوجوانوں کی واپسی

فی الحال ، شمال مشرق میں لاکھوں نوجوان تارکین وطن ہیں جو کورونا وائرس کے وبا کی وجہ سے اپنی آبائی ریاستوں کو واپس لوٹے ہیں۔ ان کے پاس نہ نوکری ہے ، نہ پیسہ ، اور نہ ہی کوئی مستقبل ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ان نوجوانوں میں عدم رواداری اور نسلی امتیاز کی بہت سی واقعات کو جھیلنا پڑا ہے ، جو لوگوں کو بغاوت پر اکساتی ہیں۔

شہری ترمیمی قانون
قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کا مسئلہ اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی منظوری کے بعد سے شمال مشرقی ریاستوں میں کافی مخالفت ہوئی۔یہ مانا جاتا ہے کہ شمال مشرق کے لوگوں کے جذبات کو نظرانداز کرنے کے لئے CAA منظور کیا گیا ہے۔ اس نے پورے خطے کو متحد کردیا۔ جو کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔یہ وہ عوامل ہیں جو آنے والے دنوں میں شمال مشرق میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

مختصر میں کہیں تو شمال مشرق میں سماجی و سیاسی منظرنامہ ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں چین کے لئے اس میں رکاوٹ ڈالنا بہت سازگار ہوگا۔اس لیے حکومت کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ وہ شمال مشرقی ریاستوں میں اپنی پالیسی نافذ کرنے کے ساتھ لوگوں کے دل اور دماغ کو جیتنے کی کوشش کرے۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں ایک طویل عرصے سے پرتشدد تحریکوں کی گواہ رہی ہیں۔ اب جب چین نے جارحانہ رویہ دکھانا شروع کیا ہے تب سے ان شمال مشرقی ریاستوں میں ایک بار پھر باغی جنون کے پیدا ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ چین ان باغی طاقتوں کے ساتھ مل کر انہیں بھڑکانے اور مشتعل کرنے کا کام کر سکتا ہے۔ حکومت کی زیادہ توجہ لائن آف کنٹرول پر مرکوز ہوتی ہے، پاکستان کے ساتھ چین پر بھی مستعدی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

دراصل چین شمال مشرق ریاستوں میں سرگرم باغی تنظیموں کے توسط سے شمال مشرقی سرحد پر مداخلت کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کی جانب سے ایک مکمل جنگ کو غیر متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

حالانکہ بھارت کو ہمیشہ ایسی چھوٹی موٹی جدوجہد کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ان کا مقابلہ کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔اس بات کے بھی امکان ہے کہ چین بھارت کو پریشان کرنے کے لیے ایسی ہلکے پھلکے چھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

چین کی اروناچل پردیش کے ساتھ 1126 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ ریاست کے مشرقی حصے کے راستے کو زیادہ تر باغی میانمار اور چین کے صوبہ یونان میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ماضی میں بھی آسام، منی پور، ناگالینڈ اور میوزم کے باغیوں نے پناہ اور رسد کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے چینی لیڈروں کے ساتھ رابطے میں تھے، حالانکہ چین نے اب تک ان کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔لیکن بھارت کے ساتھ بڑھتے فوجی کشیدگی نے چین کو اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔

آسام

مشرقی لداخ کے مختلف مقامات پر بھارتی فوج اور چین کے پی ایل کے مابین جاری تناؤ کے درمیان پریش باروہ کی زیر قیادت والی یونائیڈیٹ لبریشن فرنٹ آٖف آسام(الفا آئی) نے اس ہفتہ 17 منٹ کا ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے چین کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ الفا(آئی) نے سنہ 1962 کے تنازعے کے بعد سرعام بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ پی ایل اے نے کبھی بھی کسی بھی دیسی آسامی کو نقصان نہیں پہنچایا ہے، بلکہ اس کے برعکسی چین نے مقامی کاشتکاروں کو زرعی کاموں میں مدد فراہم کی تھی۔


الفا کی چین کے ساتھ وابستگی کئی دہائیوں پرانی ہے۔ ایک زمانے میں آسام کے بڑے باغی تنظیموں نے یونان کے صوبائی نمائندوں کے ساتھ مل کر فوج اور فوجی مدد کا مطالبہ کیا تھا۔

وہیں یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ باروہ خود چین کے صوبہ دہونگ کے ایک کاؤنٹی شہر رولی کے سرحدی علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ویسے یہ دوسری بار ہوسکتا ہے کہ الفا(آئی) نے چین کی کھل کر حمایت کی ہے۔الفا نے آخری مرتبہ مارچ 2012 میں چین کی حمایت کی تھی، جب کالعدم تنظمیوں نے تبت کارکنوں اور ان کے حامیوں کے ذریعہ آسام کے اس وقت کے چین مخالف مظاہروں کی سخت تنقید کی تھی۔اس دوران تنظیموں نے کہا تھا کہ جلاوطن تبتی اسٹبلیشنمنٹ نے گزشتہ تین دہائیوں میں کبھی بھی آسام میں ہورہے ظلم اور انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی۔

اطلاع کے مطابق الفاع(آئی ) بھارت اور میانمار سرحد کے قریب جنگلوں میں موجود کیمپوں میں تقریبا سو سے زائد جنگجؤ نے پناہ لے رکھی ہے۔یہاں سے چین کی سرحد تک پہنچنے کے لیے صرف ایک دن کا سفر طئے کرنا پڑتا ہے۔یہ تنظیم امن مذاکرات کی مخالفت کرتی آرہی ہے۔ساتھ ہی آزاد آسام کے اپنے مطالبے پر قائم ہے۔

دوسری جانب حکومت اور الفا کے ایک گروہ کے مابین گزشتہ 15 برس سے جاری بات چیت سے اب تک کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے ریاست میں متعدد لوگوں کو بے چینی ہے۔

ناگا

ناگا، جو شمال مشرق کی چار ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ناگا نے وہاں بغاوت کی تحریک کو شروع کیا۔اس تحریک سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں سے ایک چین بھی ہے۔واضح رہے کہ چین وہ پہلا ملک تھا جس نے ناگا تحریک کو اپنی حمایت دی ۔

صرف یہی نہیں ، چین نے ناگا تحریک سے وابستہ پہلے بیچ کے 133 ناگا باغیوں کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نظریاتی ٹیسٹ بھی دیئے۔

واضح رہے کہ ناگا تحریک کو دنیا کا دوسرا قدیم ترین انتہا پسندی تحریک سمجھا جاتا رہا ہے۔اس علاقے میں ناگا تحریک کو 'تمام عسکریت پسندوں کی ماں' کہا جاتا ہے۔ناگا معاملے پر حکومت کے ساتھ جاری طویل بات چیت کے 23 برس بعد بھی کوئی حتمی حل نہیں دیکھائی دے رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے، ا سے ناگاؤں کے درمیان کافی مایوسی بھی ہے۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت کو چھوڑنے والے این ایس سی این(آئی ایم) کے ذریعہ میانمار میں نئے کیمپ لگائے گئے ہیں۔

سنہ 2015 میں ، حکومت ہند اور این ایس سی این (آئی ایم) کے مابین فریم ورک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بہت سی توقعات پیدا ہوئی تھی ، لیکن اس کے بعد کوئی حقیقی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔اس کے بعد رواں سال 14 فروری کو منی پور کے اکھرول میں این ایس سی این(ائی ایم) کے ایک ہاٹ بیڈی میں تقریبا 2 ہزار ناگوں نے وہاں میں کورونا وائرس کے بحران کے خلاف چین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک کنسرٹ کا انعقاد کیا۔یہ بھارتی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے انتہائی تشویشناک علامت ہے۔

میزورم

گزشتہ برس میزورم کے دارالحکومت آئیزول میں شہریت ترمیمی بل(سی اے بی) کےخلاف مظاہرین کے ایک گروپ کی قیادت کرنے والے میزورم کے سابق وزیراعلی نے' ہلیو چائنا' کہتے ہوئے ایک بینر دیکھایا تھا جو ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

واضح رہے کہ میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) نے ساٹھ کی دہائی میں پہاڑیوں کے درمیان بغاوت کی تحریک کی قیادت کی تھی۔

منی پور
منی پور میں سب سے زیادہ باغی تنظیمیں موجود ہیں۔ یہاں تقریبا 50 باغی تنظیمیں ہیں۔ روزگار جیسے مسائل سے دوچار اس ریاست میں شورش نوجوانوں کے لئے بغاوت کرنا زندگی کا ایک طریقہ بن گیا ہے۔

کمیونسٹ عقائد کی پیروی کرنے والی متعدد طاقتور میٹی تنظیموں کے لئے یہ قدرتی چیز ہے کہ وہ چین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان باغیوں کی بہت سی تنظیموں کو چین کی نمایاں حمایت حاصل تھی۔ چین یہاں کی مضبوط باغی تنظیموں سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

نوجوانوں کی واپسی

فی الحال ، شمال مشرق میں لاکھوں نوجوان تارکین وطن ہیں جو کورونا وائرس کے وبا کی وجہ سے اپنی آبائی ریاستوں کو واپس لوٹے ہیں۔ ان کے پاس نہ نوکری ہے ، نہ پیسہ ، اور نہ ہی کوئی مستقبل ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ان نوجوانوں میں عدم رواداری اور نسلی امتیاز کی بہت سی واقعات کو جھیلنا پڑا ہے ، جو لوگوں کو بغاوت پر اکساتی ہیں۔

شہری ترمیمی قانون
قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کا مسئلہ اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی منظوری کے بعد سے شمال مشرقی ریاستوں میں کافی مخالفت ہوئی۔یہ مانا جاتا ہے کہ شمال مشرق کے لوگوں کے جذبات کو نظرانداز کرنے کے لئے CAA منظور کیا گیا ہے۔ اس نے پورے خطے کو متحد کردیا۔ جو کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔یہ وہ عوامل ہیں جو آنے والے دنوں میں شمال مشرق میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

مختصر میں کہیں تو شمال مشرق میں سماجی و سیاسی منظرنامہ ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں چین کے لئے اس میں رکاوٹ ڈالنا بہت سازگار ہوگا۔اس لیے حکومت کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ وہ شمال مشرقی ریاستوں میں اپنی پالیسی نافذ کرنے کے ساتھ لوگوں کے دل اور دماغ کو جیتنے کی کوشش کرے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.