چین کی اعلیٰ مقننہ نے ہفتے کے روز ایک سیشن میں متعدد قوانین منظور کیے ہیں جن میں خاندانی تعلیم کے فروغ اور زمینی سرحدوں کے قوانین شامل ہیں۔
چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے رپورٹ کیا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے قوانین کے نفاذ کے صدارتی احکامات پر دستخط بھی کر دیئے ہیں۔
فیملی ایجوکیشن پروموشن قانون، (Family Education Promotion Law) جو اس ماہ کے شروع میں تجویز کیا گیا ہے جس میں والدین کو ان کے بچوں کے "برے رویے" کے لیے جوابدہ ٹھہرائے گا۔
نیو یارک پوسٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو والدین کو ان کے بچوں کی بدسلوکی کی سزا دی جائے گی اور انہیں نوجوانوں کو "پارٹی ، قوم ، لوگوں اور سوشلزم سے محبت" سکھانے پر بھی مجبور کیا جائے گا۔
مجوزہ قانون کا ایک مسودہ ورژن، جس پر نیشنل پیپلز کانگریس نے اپنی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران بحث کی تھی، اور والدین کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ بچوں کو آرام کرنے اور ورزش کرنے کے لیے وقت مختص کریں۔
این پی سی کے قانون ساز امور کمیشن کے ترجمان، زانگ تیوئی نے کہا "نوجوانوں کی بدتمیزی یا بدسلوکی کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ان میں خاندانی تعلیم کا فقدان سب سے بڑی وجہ ہے۔"
نیویارک پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، ان سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچوں کو "بزرگوں کا احترام کرنے اور نوجوانوں کی دیکھ بھال کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔
واضح رہے کہ ملک کی وزارت تعلیم نے حال ہی میں اس بات پر غور کیا ہے کہ بچوں کو کتنے گھنٹے ویڈیو گیمز کھیلنے چاہئیں، اگست میں نابالغ بچوں کو اسکول کے دنوں میں آن لائن گیمز پر پابندی لگا دی گئی اور ویک اینڈ کے کھیل کو صرف تین گھنٹے تک محدود کردیا ہے۔
چین کے سرکاری کنٹرول والے میڈیا نے اس وقت آن لائن گیمنگ کو "روحانی افیون" قرار دیا ہے جس سے پوری نسل کو خطرہ ہے۔