طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے تقریباً تین ہفتوں بعد افغانستان میں عبوری حکومت اور کابینہ کا اعلان کردیا جس میں امیرالمؤمنین اور سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ کی قیادت میں 33 افراد کو شامل کیا گیا ہے۔
طالبان نے ملا محمد حسن اخوند کو اپنی نئی عبوری حکومت کی قیادت کے لیے نامزد کیا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں اور 1990 کی دہائی میں سابقہ طالبان حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔
ملا حسن اخوند اس سے قبل 1996-2001 کے دوران طالبان کے اقتدار کے آخری دور میں وزیر خارجہ اور پھر نائب وزیراعظم تھے۔ طالبان کی قیادت میں بہت سے لوگوں کی طرح ملا حسن اخوند بھی اپنے وقار کا زیادہ تر حصہ تحریک کے سابق رہنما ملا محمد عمر سے قریبی دوستی رکھتے ہیں۔
اخوند کا تعلق طالبان کی جائے پیدائش قندھار سے ہے۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی ایک رپورٹ میں انہیں عمر کا قریبی ساتھی اور سیاسی مشیر بھی قرار دیا گیا ہے۔ طالبان کے ایک ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اخوند کو تحریک کے اندر خاص طور پر اس کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے بہت عزت دی جاتی ہے۔
طالبان کی عبوری حکومت میں کس کے نام کون سا قلمدان
اس کے علاوہ نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر طالبان کے بانیوں میں سے ایک اور ملا عمر کےقریبی ساتھی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ آپریشن کے ذریعہ انھیں 2010 میں گرفتار کرکے مقید کردیا گیا تھا۔ آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد 2018 میں انھیں رہا کرکے قطر بھیج دیا گیا، جہاں پر ان کو طالبان کے سیاسی دفتر کا صدر مقرر کیا گیا۔ انھوں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کی اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے معاہدہ پر دستخط بھی کی