برازیل، روس، بھارت اور چین کی نمائندگی کرنے والی برکس کی اصطلاح 2001 میں پہلی بار گولڈمین سیچس ایسٹ منیجمینٹ گروپ کے اس وقت کے چیئرمین جم اونیل نے کی تھی، تاکہ دنیا کی چار تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی نشاندہی کی جا سکے۔
او نیل نے پیش قیاسی کی تھی کہ یہ معیشتیں سنہ 2050 تک دنیا کی پہلی پانچ معیشتوں میں سے چار ہوں گی، جبکہ چین اور بھارت کو پہلی دو پوزیشنز حاصل ہونگی۔یہ پیش گوئی ان ممالک میں مضبوط معاشی نمو پر مبنی تھی۔
ان کی مستحکم مالی نمو کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے چاروں ممالک نے اس گروپ کو باضابطہ بنانے کا فیصلہ کیا اور برک کا پہلا سربراہی اجلاس روس میں جون 2009 میں منعقد ہوا۔
بعدازاں ، جمہوریہ جنوبی افریقہ کو برک میں شامل کیا گیا جس کے بعد اس گروپ میں توسیع ہوئی اور یہ برکس بن گیا۔اس توسیع کے بعد کئی ممالک جیسے انڈونیشیا، جنوبی کوریا، پاکستان وغیرہ نے اس نئے گروپ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔
برکس دنیا کے 27 فیصد سے زیادہ لینڈ ماس اور عالمی آبادی کا 41 فیصد سے زائد حصہ کا احاطہ کرتا ہے جس میں جی ڈی پی 18.6 ٹریلین امریکی ڈالر (دنیا کا 23.2فیصد) جی ڈی پی (پی پی پی) کا 40.55 ٹریلین امریکی ڈالر اور 4.46 ٹریلین امریکی ڈالر غیر ملکی ایکسچیج ریزرو ہیں، جس میں چین کا سب سے بڑا حصہ شامل ہے۔
یہ اعداد و شمار یقینی طور پر دنیا کو برکس سے متعلق سنجیدگی ظاہر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مختلف تنقیدوں کے باوجود2014 میں برکس نے اپنے ارکان ممالک کی شراکت داری سے 10 بلین امریکی ڈالر پر محیط نیوڈیولپمنٹ بنک قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس موقع پر رقم کو جلد دوگنی کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔ یہ بینک مختلف ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرض فراہم کرتا ہے۔
سنہ 2014 برکس نے کنٹنجنسی ریزرو ایگریمنٹ پر بھی دستخط کیے، جس کا مقصد رکن ممالک کی مدد کرنا جب انہیں ادائیگی کے بحرانوں کا سامنا ہو۔
رکن ممالک دیگر شعبوں جیسے مواصلات اور انفارمیشن ٹکنالوجی، کسٹم اور ٹیرف ، موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کنٹرول، انسداد دہشت گردی، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایجادات، توانائی وغیرہ۔
تاہم کسی بھی دوسری کثیرالجہتی تنظیم کی طرح برکس بھی تنقید شکارہے۔ اگرچہ کچھ نقاد اس کو چین پر مبنی قرار دیتے ہیں ، دوسروں نے اس کو متفرق اور مسابقتی مفادات کا گروہ ہونے کی وجہ سے طعنہ دیا ہے۔