ETV Bharat / international

شام: لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ اب تک جاری ہے

موجودہ ملی لاشوں نے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں رقہ کی بازیابی کے دوران شدید لڑائیوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ کیوں کہ ان لاشوں کو کسی قبر سے نہیں، بلکہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے نکالا گیا ہے۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Sep 11, 2019, 10:07 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 6:57 AM IST

خلیجی ملک شام سے شدت پسند تنطیم 'داعش' کے خاتمے کے 2 برس کے بعد بھی شمال مشرقی شہر 'رَقّہ' میں انسانی لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ اب تک جاری ہے

موجودہ ملی لاشوں نے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں رقہ کی بازیابی کے دوران شدید لڑائیوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ کیوں کہ ان لاشوں کو کسی قبر سے نہیں، بلکہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے نکالا گیا ہے۔

لاش نکالنے والے افراد کے لیے یہ مناظر ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے انتہائی پریشان کن ہیں۔

موقع پر موجود شخص نے بتایا کہ بدبو کی وجہ سے مقامی لوگوں نے کسی لاش کے ہونے کا احساس کیا تھا۔

لاش نکالنے والی ٹیم کے رکن یاسر خمیس نے بتایا کہ اطلاع ملنے کے بعد انہوں نے یہاں آ کر کھودنا شروع کیا۔ پہلے روز 4 لاشیں، دوسرے روز بھی 4 لاشیں اور تیسرے روز 5 لاشیں برآمد ہوئیں۔

خیال رہے کہ رقہ شہر کے اندر حالیہ دنوں میں برآمد کی گئی یہ سولہویں اجتماعی قبر ہے۔

قبر کھودنے والے شخص نے ایک ایسی لاش کو نکالنے کا دعوی کیا، جو داعش کے عسکریت پسندوں کی یونیفارم میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا آسان تھا کہ یہ کسی عسکریت پسند کی لاش تھی۔

یاسر خمیس کا کہنا ہے کہ اطلاع میں اب بھی 4 اجتماعی قبریں ہیں، جنہیں کھودنا باقی ہے۔ تقریبا 90 فیصد شہر کے ملبے کو ہٹایا جا چکا ہے۔ بعد ازاں شہر کے مضافات کا رخ کرنے کا ارادہ ہے۔

یاسر خمیس کا مزید کہنا ہے کہ نکالی گئی لاشوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سے 14 سو لاشوں کی شناخت ان کے یونیفارم کی وجہ سے عسکریت پسند کے طور پر کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ برآمد کی گئی لاشیں خواتین اور بچوں کی تھیں۔

تین ماہ قبل خمیس اور ان کی ٹیم نے برآمد کی گئی لاشوں کے ڈی این اے کے نمونوں کو یکجا کرنے کی شروعات کی ہے، تاکہ ان کی شناخت کو ممکن بنایا جا سکے۔

جن لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے ان کی ہڈیوں، دانتوں اور بالوں کے ساتھ پالیتھین بیگ میں ان کی شناخت سے متعلق تحریروں اور نمبرات کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں 'انٹر نیشنل ہیومین رائٹز' نے مقامی فورنسک گروپ کی جانب سے عدم تعاون پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

غور طلب ہے کہ رقہ شہر کسی زمانے میں 'داعش' کے خود ساختہ اعلان کردہ 'خلافت'کا دارالحکومت اور ان کے آخری دور کے بڑے مقامات میں سے ایک تھا۔

داعش کے قبضے کے دوران اجتماعی طور پر لوگوں کے سرقلم کیے گئے تھے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔

رقعہ پر قبضے کے لیے برسوں تک جاری مہم میں مزید ہلاکتیں دیکھی گئی تھیں۔کُرد قیادت والی فوج نے امریکی زیرقیادت اتحاد کے فضائی حملوں کی مدد سے یہ جنگ کی تھی۔

خیال رہے کہ سنہ 2017 میں رقہ کو داعش کے قبضے سے دوبارہ حاصل کے نتیجے میں شہر کا 80 فیصد حصہ تباہ ہوگیا تھا۔

خلیجی ملک شام سے شدت پسند تنطیم 'داعش' کے خاتمے کے 2 برس کے بعد بھی شمال مشرقی شہر 'رَقّہ' میں انسانی لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ اب تک جاری ہے

موجودہ ملی لاشوں نے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں رقہ کی بازیابی کے دوران شدید لڑائیوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ کیوں کہ ان لاشوں کو کسی قبر سے نہیں، بلکہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے نکالا گیا ہے۔

لاش نکالنے والے افراد کے لیے یہ مناظر ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے انتہائی پریشان کن ہیں۔

موقع پر موجود شخص نے بتایا کہ بدبو کی وجہ سے مقامی لوگوں نے کسی لاش کے ہونے کا احساس کیا تھا۔

لاش نکالنے والی ٹیم کے رکن یاسر خمیس نے بتایا کہ اطلاع ملنے کے بعد انہوں نے یہاں آ کر کھودنا شروع کیا۔ پہلے روز 4 لاشیں، دوسرے روز بھی 4 لاشیں اور تیسرے روز 5 لاشیں برآمد ہوئیں۔

خیال رہے کہ رقہ شہر کے اندر حالیہ دنوں میں برآمد کی گئی یہ سولہویں اجتماعی قبر ہے۔

قبر کھودنے والے شخص نے ایک ایسی لاش کو نکالنے کا دعوی کیا، جو داعش کے عسکریت پسندوں کی یونیفارم میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا آسان تھا کہ یہ کسی عسکریت پسند کی لاش تھی۔

یاسر خمیس کا کہنا ہے کہ اطلاع میں اب بھی 4 اجتماعی قبریں ہیں، جنہیں کھودنا باقی ہے۔ تقریبا 90 فیصد شہر کے ملبے کو ہٹایا جا چکا ہے۔ بعد ازاں شہر کے مضافات کا رخ کرنے کا ارادہ ہے۔

یاسر خمیس کا مزید کہنا ہے کہ نکالی گئی لاشوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سے 14 سو لاشوں کی شناخت ان کے یونیفارم کی وجہ سے عسکریت پسند کے طور پر کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ برآمد کی گئی لاشیں خواتین اور بچوں کی تھیں۔

تین ماہ قبل خمیس اور ان کی ٹیم نے برآمد کی گئی لاشوں کے ڈی این اے کے نمونوں کو یکجا کرنے کی شروعات کی ہے، تاکہ ان کی شناخت کو ممکن بنایا جا سکے۔

جن لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے ان کی ہڈیوں، دانتوں اور بالوں کے ساتھ پالیتھین بیگ میں ان کی شناخت سے متعلق تحریروں اور نمبرات کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں 'انٹر نیشنل ہیومین رائٹز' نے مقامی فورنسک گروپ کی جانب سے عدم تعاون پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

غور طلب ہے کہ رقہ شہر کسی زمانے میں 'داعش' کے خود ساختہ اعلان کردہ 'خلافت'کا دارالحکومت اور ان کے آخری دور کے بڑے مقامات میں سے ایک تھا۔

داعش کے قبضے کے دوران اجتماعی طور پر لوگوں کے سرقلم کیے گئے تھے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔

رقعہ پر قبضے کے لیے برسوں تک جاری مہم میں مزید ہلاکتیں دیکھی گئی تھیں۔کُرد قیادت والی فوج نے امریکی زیرقیادت اتحاد کے فضائی حملوں کی مدد سے یہ جنگ کی تھی۔

خیال رہے کہ سنہ 2017 میں رقہ کو داعش کے قبضے سے دوبارہ حاصل کے نتیجے میں شہر کا 80 فیصد حصہ تباہ ہوگیا تھا۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 6:57 AM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.