آسٹریلیائی ہائی کمشنر سے سبکدوش ہونے والی ہریندر سدھو کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا اور بھارت نے گزشتہ چار برسوں کے دوران اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مختلف دفاعی سرگرمیوں میں دو طرفہ اور کثیر جہتی مشقیں اور ڈائیلاگ شامل ہیں ۔یہ دفاعی سرگرمیاں سنہ 2014 میں 11 سے بڑھ کر گزشتہ برس 39 ہوچکی ہیں۔
نئی دہلی میں چار برس تک بطور آسٹریلیائی ہائی کمشنر رہنے کے بعد کینبرا میں سدھو محکمہ برائے امورخارجہ اور تجارت میں نائب سکریٹری کا عہدہ سنبھالیں گی، ساتھ میں انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں دونوں ممالک اپنے دو مسلع افواج کے مابین باہمی رسد معاہدے کو حتمی شکل دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ بھارت اور آسٹریلیا ایشیا کے دو قریبی شراکت داروں میں شامل نہیں ہوسکتے، اور اس شراکت داری میں شامل ہونے کے لیے دونوں ممالک کے لیے واقعی کوئی روکاوٹیں نہیں ہیں۔ اگر کوئی مسائل یا چیلنچ در پیش ہوتے بھی ہیں تو ہم ان سے آسانی سے فتح حاصل کرسکتے ہیں۔یہ ہمارا عام نظریہ ہے۔ چونکہ ہم ہند بحر الکاہل میں شراکت قائم کررہے ہیں ،اس لیے بھارت کو آسٹریلیا سے بہتر دوست ملنے کی امید نہیں کرنی چاہئے اور ہم بھارت کو ایک بہت ہی قریبی دوست کی حیثیت سے بھی دیکھتے ہیں۔ سدھو سے جب لاجسٹک معاہدے پر تبادلہ خیال کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ"ہم ان مذاکرات پر پیشرفت کر رہے ہیں اور میں بہت پر امید ہوں کہ ہم اس سال بہتر نتائج حاصل کریں گے۔
بھارت کے پاس امریکہ، فرانس اور سنگا پور کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے ہیں۔گزشتہ نومبر میں وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی سطح پر افتتاحی 2+2 کے دوران جاپان کےساتھ ایکویسیشن اینڈ کراس سروسنگ معاہدے(اے سی ایس اے) کے خاتمے کی طرف پیشرفت ہوئی ہے۔ایک بار جاپان کے ساتھ یہ معاہدہ اختتام پذیر ہوجائے آسٹریلیا ہند بحرالکاہل کے خطے میں خاص طور پر ایچ اے-ڈی آر( ہیومنیٹیرین اسسٹنس اینڈ ڈیساسٹر ریلیف) کے لیے سمندری افواج کے انٹر آپرابیلٹی کو بہتر بنانے کے ساتھ بھارتی بحریہ کی ایسٹ وارڈ آپریشن کو تقویت بخشے گا۔
آسٹیریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کی جانب سے باضابطہ طور پر ریسینا مذاکرات کے دوران اس سےمتعلق اعلان کیا جانا تھا، لیکن آسٹریلیا میں لگے آگ کی وجہ سے رواں ماہ انہیں اپنا دہلی کا طئے شدہ دورہ منسوخ کرنا پڑا، لہذا وہ جولائی سے قبل بھارت کے سفر کو دوبارہ ترتیب دینے کی امکانات تلاش کررہے ہیں۔
سدھو نے ہند بحرالکاہل کو ایک مشترکہ نظر کے طور پربیان کرتے ہوئے بتایاکہ 'ہم ایک ایسا ہند بحرالکاہل چاہتے ہیں جو آزاد ہو، جہاں ممالک خود مختار، آزاد، مستحکم اور خوشحال ہو اور جو اپنی خواہش کے مطابق اپنی آزادی کا استعمال کرسکیں۔میں نہیں سوچتی ہوں کہ ان سب چیزوں پر بھارت کو کوئی اعتراض ہوگا'۔
رئیسینا مذاکرات کے دوران روسی وزیر خارجہ لاوروو کے اس تبصرے کے بارے میں جب پوچھا گیا کہ ان کے مطابق 'بحرالکاہل' چین پر قابو پانے کے لیے امریکہ کی ایک چال ہے تو اس بارے میں سدھو نےجواب دیا کہ 'یہ ضروری نہیں کہ اس خیالات پر کسی ایک ملک کا غلبہ ہو اور نہ ہی اس خیالات کا مقصد ہو کسی ملک کو شامل کرنا یا نہیں۔یہ حقیقت میں اس طرح کے اسٹریٹجک ماحول کو تصور کرنے کی کوشش ہے جس میں ہم رہتے ہیں یا جیسے اسٹریٹجک ماحول کی ہم تلاش میں ہیں اور کسی بھی جغرافیائی تصور میں چین بحرالکاہل کا ایک حصہ ہے'۔
ایک خبر کے مطابق جب سدھو سے پوچھا گیا کہ بھارت، امریکہ اور جاپان کے ساتھ شروع کیے گئے بحری مشق میں حصہ لینے کے لیے کینبرا کو ہری جھنڈی دکھا سکتا ہے، تو سدھو نے جواب دیا کہ اگر بھارت مالابار مشقوں کے لیے آسٹریلیا کو مدعو کرتا ہے تو اس کے بہت امکانات ہیں کہ آسٹریلیا اس دعوت کو قبول کرلے۔
پاکستان معاملے میں جب سوال کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے واچ ڈاگ کی جانب سے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت معاملے میں بلیک لسٹ میں رکھنے کے بجائے پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر کیا جاسکتا ہے اس پر ہائی کمشنر نے کہا یہ ایک تکینکی تشخیص کا معاملہ ہے۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس وقت آسٹریلیا پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل رکھنے کے حق میں ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ میٹنگوں میں جو پیرامیٹر طئے کیے گئے تھے پاکستان اس کے مطابق کھرا نہیں اترا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی تمام میٹنگ میں آسٹریلیا نے تکینکی نقطہ نظر کو اپنایا ہے اور یہی سب سے معروض طریقہ ہے جس سے ہم اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ہم بہتر نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ پاکستان پر جو ضروریات عائد کی جاتی ہیں وہ اسے پورا کرتا ہے۔لہذا ہم اس مسئلے پر ایک تکنیکی نقطہ نظر اپناتے ہوئے پاکستان کی معروضی شرائط میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیتے ہیں۔
پیرس میں 16 سے 21 فروری تک ایف اے ٹی ایف کے پلینری اور مشترکہ ورکنگ گروپس کا اہم اجلاس فیصلہ کرے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر رکھا جائے یا برقرار رکھا جائے۔ایشیا پیسفک گروپ (اے پی جی) نے گزشتہ برس کے اوائل میں کینبرا کے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا۔
سدھو نے مزید کہا کہ ہم بدستور گرے لسٹ کی تائید کرتے ہیں کیونکہ تکنیکی بنیاد پر ہمارے اندازہ یہ رہا ہے کہ پاکستان ہمیں مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان اپنی کارگردگی میں بہتری لاتا ہے تو ہم اسے مختلف نظریہ سے نہیں دیکھیں گے۔فی الحال ہم ابھی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے حق میں ہے۔
سفیر نے بھارت کے جامع علاقائی معاشی شراکت داری (آر سی ای پی) میں دوبارہ شامل ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ نئی دہلی کے ساتھ ساتھ خطے کے مفاد میں ہوگا۔
سدھو نے کہا کہ ہماری امید ہے کہ بھارت آر سی ای پی ٹیبل پر واپس آنے پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت ان معاملات پر بات چیت کرسکتا ہے جس کے بارے میں وہ فکر مند ہے۔ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر بھارت دوبارہ آر سی ای پی میں شامل ہوتا ہے تو یہ بھارت اور خطے کے لئے اچھا ہوگا۔ اس سے بھارت اور آسیان اور دوسرے ممالک کے مابین معاشی اتحاد اور سیاسی تعلقات کو مضبوطی ملے گی۔
اگر بھارت آر سی ای پی میں رہتا تو اس سے یہ خطرہ کم ہوجاتا ہے کہ بھارت کو آر سی ای پی یا آئندہ کسی معاشی تعاون کے راستے سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔بھارت آر سی ای پی گروپ میں ایک بہتر اور تعمیری شراکت داری قائم کرسکتا ہے۔ بھارت جب بھی آر سی ای پی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو ہم اس کا دل سے خیر مقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوپن لبرل تجارتی پالیسی بھارتی معیشت اور اس کی معاشی نمو کو بھی بڑھائے گی۔بھارت تجارت کو ہمیشہ کشادہ باہوں سے اپناتا ہے اور تجارت کے معیار، حد سے واقعی بھارت کی نشوونما پر اثر پڑے گا۔
آپ اپنے ملک میں جو کچھ کرسکتے ہیں اسکی حدود طئے ہیں۔مثال کے طور پر بھارت مضبوط مینوفیکچر سیکٹر قائم کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ان میں درکار سامان کی ضرورت ہوگی اور ان سامان کو اچھے معیار ، قابل اعتماد اور سستے ہونے کی ضرورت ہے، اور آپ ہمیشہ اپنے ضرورت کے مطابق سامان حاصل نہیں کرسکتے بلکہ آپ کو ان سامان کو درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی، آپ ہمیشہ اپنی آبادی پر منحصر نہیں کرسکتے بھلے ہی وہ مارکیٹ کے لیے کتنی ہی بڑی ہو۔آپ کو مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مصنوعات کو برآمد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کی مصنوعات اعلی معیار کی ہو اور سستی ہو۔
وہیں سفیر نے کشمیر کے حالات اور شہریت ترمیمی ایکٹ مخالف احتجاج پر کسی بھی قسم کا بیان دینے سے انکار کردیا، حالانکہ انہوں نے بھارت کی جمہوریت کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ہند بحر الکاہل کی حکمت عملی کے حصے کے طور پر بات کرتے ہیں تب ہم خطے میں مضبوط جمہوریت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔بھارت کی ایک بڑی طاقت اس کی تکثیری جمہوری روایات ہے۔ہم بھارت میں اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہم ان روایات کے بنیاد پر خطے کی تعمیر میں شراکت دار کی حیثیت سے ہندوستان کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں ۔
سدھو سے جب چینی ٹیلی کام ہوائی کمپنی کے فائیو جی نیٹ ورک ڈاؤن انڈر کے لیے ایکویپمینٹ کی فراہمی کی اجازت نہیں دینے پر سوال کیا گیا تو انہوں قومی مفاد کی بنا پر آسٹریلیا کے اعتراض کرنے پر دفاع کیا۔