پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’میرے فیصلوں کے نتائج یا رائے اہم نہیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ وہی کیا جو لگا کہ صحیح ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دن پہلے خصوصی عدالت نے غداری کیس میں جنرل (رٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف اپنا فیصلہ سنائے جانے کے بعد ان کے اور عدلیہ کے خلاف ڈرانے والی مہم شروع کی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد کی قیادت والی خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے سابق فوجی آمر کو 2-1 کے ووٹ سے سزائے موت کی سزا سنائی۔ عدالت نے تین نومبر سنہ 2007 کو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مشرف کو غداری کا مجرم پایا۔ فیصلہ میں پیراگراف 66 کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشرف کو گرفتار کرنے اور اگر وہ مردہ پایا جاتا ہے تو اس کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین دنوں تک لٹکانے کا التزام ہے۔
صحافیوں سے بات چیت میں کھوسہ نے کہا کہ جج کو پتھر دل نہیں شیر دل ہونا چاہئے۔ انہوں نے مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی۔
کھوسہ پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے مشرف کے غداری کیس پر غیر مناسب اثر ڈالا ہے۔ اس پر کھوسہ نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ اس بارے میں حقیقت سامنے آئے گی‘۔