یونیسف نے اعدادوشمار کے لحاظ سے افغانستان کو 'دنیا کا سب سے زیادہ جان لیوا جنگی حصہ' قرار دے دیا ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فور کے مطابق افغانستان میں سال 2019 خاص طور پر بچوں کے لیے مہلک رہا ، جہاں وہ بچے، ان کے کنبے اور برادری کے لوگ یومیہ تنازعات کے بھیانک نتائج کا سامنا کرتے رہے۔
یونیسیف کی رپورٹ میں ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا ایک بیان بھی شامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود افغان بچوں کی ہمت کی داد دی جانی چاہیے کہ وہ بڑے ہونے، اسکول جانے، مہارت سیکھنے اور اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے بے قرار ہیں۔ ہمیں ان کی غیر معمولی ہمت کی حوصلہ افزائی کے لئے مزید اقدامات کرنے چاہیے۔
بچوں کی حفاظت عنوان سے اس رپورٹ میں افغانستان کی صورتحال کے لیے میں تمام فریقین کو مورد الزام گردانا گیا ہے جو کوئی چالیس برسوں سےبر سر پیکار ہیں اور ان کی غیر ذمہ داری کی سزا بچوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2009 اور 2018 کے درمیان جہاں لگ بھگ ساڑھے چھ ہزار بچے ہلاک اور کم و بیش 15 ہزار زخمی (معذور) ہوچکے ہیں ، وہیں 2018 کے بعد سے افغانستان میں بچوں کی ہلاکتوں کی شرح میں 11 فیصد اضافہ بھی ہوا۔بچوں کو دیگر چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جس میں شدید غذائیت قلت بھی شامل ہے اور اس کی وجہ سے 6 لاکھ نوجوان متاثر ہیں۔
خودکش بم حملوں میں اضافہ اور حکومت اور حکومت مخالف عسکریت پسندوں کے مابین زمینی جھڑپیں ان تباہیوں کے بنیادی اسباب ہیں۔
یونیسیف نے تمام بر سر پیکارفریقین پر زور دیا ہےکہ وہ بین اقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جس میں بچوں کی حفاظت، اسکولوں اور صحت کے مراکز کو نشانہ نہ بنانے اور انسانی امداد تک رسائی کی اجازت ہو۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہر تین میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے جوغیر منصوبہ بند زچگی کا باعث بنتی ہے اور باضابطہ تعلیم تک رسائی نہ ہونے سے تقریباً 37 لاکھ اسکول کی عمر والے بچے متاثر ہور ہے ہیں۔لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل کی جارہی ہیں اور انہیں گھریلو زیادتی اور جنسی تشدد ک ا بھی سامنا ہے جس سے بچانے کے لیے افغان حکام اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ بھی ینیسیف سرگرم عمل ہے۔شدید غذائی قلت کے خاتمے کے لیے یونیسیف 2 لاکھ 77 ہزار متاثرہ بچوں کو علاج فراہم کرتا ہے۔