افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل چھوڑ کر خاموشی سے متحدہ عرب امارات میں پناہ لینے والے صدر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ اگر میں کابل کو نہیں چھوڑتا تو کافی زیادہ خونریزی ہوتی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ کابل میں خون خرابہ شروع ہو جیسا کہ شام اور یمن میں ہوا تھا۔ اس لیے میں نے کابل سے جانے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے حکومتی عہدیداروں کے مشورے پر ملک چھوڑا اور سیکیورٹی ٹیم نے باہر چلے جانے پر مجبور کیا کیونکہ میری گرفتاری اور قتل کرنے کے واضح امکانات تھے۔
انھوں نے کہا کہ میں باعزت موت سے خوفزدہ نہیں ہوں اور افغانستان کی بے عزتی میرے لیے قابل قبول نہیں تھی لیکن مجھے ایسا کرنا پڑا، مجھے خونریزی اور افغانستان کو تباہی سے بچانے کے لیے افغانستان سے باہر نکالا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ میں واپس افغانستان جانے کے لیے مشاورت کر رہا ہوں اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے اور افغان حاکمیت، حقیقی اسلامی اقدار اور قومی کامیابی کے لیے متحد ہوکر لڑائی جاری رکھوں گا۔
اشرف غنی نے بدھ کو دیر رات اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں افغان سکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ امن عمل کی ناکامی کی وجہ سے طالبان نے اقتدار چھین لیا۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ اور بین الاقوامی تعاون نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے صدر اشرف غنی اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر ملک میں خوش آمدید کہا ہے۔
تاجکستان میں تعینات سفیر کی جانب سے بھاری رقم لے جانے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے پہنی ہوئی چپل اتارنے اور دوسرے جوتے پہننے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔کابل میں روسی سفارت خانے نے بھی الزام لگایا تھا کہ غنی چار کاروں اور ہیلی کاپٹر کے ساتھ کابل سے روانہ ہو گئے ہیں۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں کابل اس لیے چھوڑا کیونکہ طالبان پیش قدمی کر رہے تھے اور ملک کے حالات خراب ہوتے جا رہے تھے۔
وہیں انہوں نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
- Taliban begin unprecedented talks: طالبان کمانڈر کی سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات
- اشرف غنی کو یو اے ای میں ملی پناہ
- 'عالمی برادری کو افغانستان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے'
- آئی ایم اے دہرادون سے طالبان کے اعلیٰ کمانڈر نے بھی ٹریننگ لی
واضح رے کہ 15 اگست کو افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن کسی کو بھی ان کے جائے پناہ کا عم نہیں تھا۔ ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اشرف غنی تاجکستان چلے گئے ہیں تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے آن لائن ویڈیو بیان میں اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘وہ مشکل وقت میں افغانستان چھوڑ گئے ہیں، اللہ ان سے پوچھے گا’۔ ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی مشکل وقت میں ملک کو چھوڑ کر گئے ہیں، جس پر انہیں تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔