ETV Bharat / international

عراق: ان گھروں میں کبھی یہودی رہا کرتے تھے

فی الحال یہودیوں کے گھروں کو حکومت کی تحویل میں رکھا گیا ہے، جسے بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو حکومت نے مقامی کرد باشندوں کو کرائے پر دے رکھا ہے۔ یہاں آباد یہودی خاندانوں کو آج بھی مقامی کرد باشندے یاد کرتے ہیں۔

عراق: ان گھروں میں کبھی یہودی رہا کرتے تھے
عراق: ان گھروں میں کبھی یہودی رہا کرتے تھے
author img

By

Published : Feb 6, 2020, 11:55 AM IST

Updated : Feb 29, 2020, 9:31 AM IST

اسرائیل کے قیام سے پہلے کھنڈر میں تبدیل ان گھروں میں یہودی رہا کرتے تھے۔ عراق کے شمال میں کردستان علاقے کے سلیمانیہ میں یہودیوں کے شاندار کوٹھی نما مکانات ہوا کرتے تھے۔

ویڈیو

آج سے 70 برس قبل اسرائیل ہجرت کرنے سے پہلے یہاں یہودیوں کی بڑی تعداد تھی۔ لیکن ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد یہاں کے شاندار گھر کھنڈروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

ایک مقامی باشندے عمر حماد نے بتایا کہ اس علاقے کو یہودی پڑوس کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں یہودی رہا کرتے تھے۔ یہ ایک بڑا علاقہ ہے لیکن یہاں یہودیوں کے 30 سے 40 گھر ہی تھے، کیونکہ یہودیوں کے مکانات بڑے اور وسیع ہوا کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی مکان 500 مربع میٹر سے کم نہیں تھا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہاں ایک بڑا سا یہودی عبادت خانہ یعنی سینیگاگ تھا جسے آج کل شیخ عباسی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس وقت کا یہودی عبادت خانہ تھا ، لیکن اب یہ مسجد میں تبدل ہو گیا ہے۔

ان میں سے بیشتر گھر ویران ہیں، جبکہ کچھ پر مقامی کرد باشندوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ کچھ یہودیوں نے اسرائیل جانے سے قبل اپنے گھر بیج دیے تھے، لیکن کچھ تو اپنی پوری زندگی کی کمائی یوں ہی چھوڑ کر اسرائیل چلے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: عراق میں یہودی گھروں کے اندر اب کون رہتا ہے؟

فی الحال یہودیوں کے گھروں کو حکومت کی تحویل میں رکھا گیا ہے، جسے بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے۔

ان میں سے کچھ کو حکومت نے مقامی کرد باشندوں کو کرائے پر دے رکھا ہے۔ یہاں آباد یہودی خاندانوں کو آج بھی مقامی کرد باشندے یاد کرتے ہیں۔

ایک دوسرے مقامی شخص عمر صالح نے بتایا کہ یہودی یہاں ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ سنہ 1952 میں مائیک ہنا نامی ایک یہودی کے یہاں اجرت پر کام کرتے تھے۔ ان کی ایک سونے کی دکان تھی۔ لیکن 1952 میں یہودیوں نے یہاں سے ہجرت کرنا شروع کر دیا۔ اور آخر کار وہ بھی اسرائیل چلے گئے۔

مزید پڑھیں: وہ محلہ جو کبھی یہودیوں سے آباد تھا

خیال رہے کہ عراق میں یہودی خاندان انتہائی فعال اور خوشحال ہوا کرتے تھے۔ ان کا بنیادی پیشہ ریئل اسٹیٹ اور سوناری کا تھا۔

ببلونین جیوری ہیریٹیج سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکڑ زوی یہودا نے بتایاکہ 70 برس گزرنے کے باوجود آج تک یہاں ان کے گھروں میں رہنے والے مسلمان یہودیوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہاں یہودیوں کا ایک عبادت خانہ تھا، جس میں اب لوگ رہتے ہیں۔

جب 14 مئی سنہ 1948 میں اسرائیل کا قیام ہوا تو دنیا بھر سے یہودیوں کی بڑی تعداد اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے لگی، اسی ضمن میں عراق سے بھی یہودیوں نے ہجرت کر کے اسرائیل کو اپنا آخری مسکن بنا لیا۔

مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: فلسطین اور اسرائیل کی پوری کہانی

یہاں سے یہودی چلے تو گئے لیکن آج بھی سلیمانیہ میں کھنڈرات کی شکل میں ان کے گھر موجود ہیں، اور وہ اپنے مکینوں کے لیے آہیں بھر رہے ہیں۔

اسرائیل کے قیام سے پہلے کھنڈر میں تبدیل ان گھروں میں یہودی رہا کرتے تھے۔ عراق کے شمال میں کردستان علاقے کے سلیمانیہ میں یہودیوں کے شاندار کوٹھی نما مکانات ہوا کرتے تھے۔

ویڈیو

آج سے 70 برس قبل اسرائیل ہجرت کرنے سے پہلے یہاں یہودیوں کی بڑی تعداد تھی۔ لیکن ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد یہاں کے شاندار گھر کھنڈروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

ایک مقامی باشندے عمر حماد نے بتایا کہ اس علاقے کو یہودی پڑوس کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں یہودی رہا کرتے تھے۔ یہ ایک بڑا علاقہ ہے لیکن یہاں یہودیوں کے 30 سے 40 گھر ہی تھے، کیونکہ یہودیوں کے مکانات بڑے اور وسیع ہوا کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی مکان 500 مربع میٹر سے کم نہیں تھا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہاں ایک بڑا سا یہودی عبادت خانہ یعنی سینیگاگ تھا جسے آج کل شیخ عباسی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس وقت کا یہودی عبادت خانہ تھا ، لیکن اب یہ مسجد میں تبدل ہو گیا ہے۔

ان میں سے بیشتر گھر ویران ہیں، جبکہ کچھ پر مقامی کرد باشندوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ کچھ یہودیوں نے اسرائیل جانے سے قبل اپنے گھر بیج دیے تھے، لیکن کچھ تو اپنی پوری زندگی کی کمائی یوں ہی چھوڑ کر اسرائیل چلے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: عراق میں یہودی گھروں کے اندر اب کون رہتا ہے؟

فی الحال یہودیوں کے گھروں کو حکومت کی تحویل میں رکھا گیا ہے، جسے بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے۔

ان میں سے کچھ کو حکومت نے مقامی کرد باشندوں کو کرائے پر دے رکھا ہے۔ یہاں آباد یہودی خاندانوں کو آج بھی مقامی کرد باشندے یاد کرتے ہیں۔

ایک دوسرے مقامی شخص عمر صالح نے بتایا کہ یہودی یہاں ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ سنہ 1952 میں مائیک ہنا نامی ایک یہودی کے یہاں اجرت پر کام کرتے تھے۔ ان کی ایک سونے کی دکان تھی۔ لیکن 1952 میں یہودیوں نے یہاں سے ہجرت کرنا شروع کر دیا۔ اور آخر کار وہ بھی اسرائیل چلے گئے۔

مزید پڑھیں: وہ محلہ جو کبھی یہودیوں سے آباد تھا

خیال رہے کہ عراق میں یہودی خاندان انتہائی فعال اور خوشحال ہوا کرتے تھے۔ ان کا بنیادی پیشہ ریئل اسٹیٹ اور سوناری کا تھا۔

ببلونین جیوری ہیریٹیج سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکڑ زوی یہودا نے بتایاکہ 70 برس گزرنے کے باوجود آج تک یہاں ان کے گھروں میں رہنے والے مسلمان یہودیوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہاں یہودیوں کا ایک عبادت خانہ تھا، جس میں اب لوگ رہتے ہیں۔

جب 14 مئی سنہ 1948 میں اسرائیل کا قیام ہوا تو دنیا بھر سے یہودیوں کی بڑی تعداد اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے لگی، اسی ضمن میں عراق سے بھی یہودیوں نے ہجرت کر کے اسرائیل کو اپنا آخری مسکن بنا لیا۔

مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: فلسطین اور اسرائیل کی پوری کہانی

یہاں سے یہودی چلے تو گئے لیکن آج بھی سلیمانیہ میں کھنڈرات کی شکل میں ان کے گھر موجود ہیں، اور وہ اپنے مکینوں کے لیے آہیں بھر رہے ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 9:31 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.