پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں حکام نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے گذشتہ روز کرک میں واقع ایک پرانے مندر میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ اسے آگ بھی لگا دی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں بہت سے افراد کو اس مندر کو توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس مندر سے دھواں بھی اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
مقامی پولیس افسر رحمت اللہ وزیر نے بتایا کہ چند مقامی مسلم مذہبی شخصیات نے مبینہ طور پر اس مندر میں جاری توسیعی کام کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے کی بات کہی تھی۔ تاہم اس پولیس افسر کے بقول اس مظاہرے کے دوران وہاں موجود مظاہرین کے مذہبی قائدین نے جب اشتعال انگیز تقریریں کیں، تو ہجوم نے مشتعل ہو کر اس مندر کو آگ لگا دی۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’حکومت کی حیثیت سے تمام شہریوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ اور ہر شہری کی سلامتی کو یقینی بنانا ہماری اہم ترین ذمے داری ہے‘۔
گذشتہ روز صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ہجوم کے ذریعہ مندر کو نذر آتش کیا گیا اور مندر کو نقصان پہنچایا گیا، جس کے بعد پولیس نے چھاپہ ماری کرتے ہوئے دو درجن سے زائد افراد کو افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
مقامی پولیس نے بتایا کہ رات میں چھاپہ ماری کرتے ہوئے کم از کم 24 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور مزید افراد کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ یہ مندر گذشتہ صدی کے اوائل میں پہلے ایک سمادھی کے طور پر تعمیر کیا گيا تھا۔ وہاں سنہ 1997 میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ اسی لیے پاکستانی سپریم کورٹ نے سنہ 2015 میں اس کی دوبارہ تعمیر کا حکم دے دیا تھا۔
مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان میں ہندوؤں کی مجموعی آبادی تقریبا 80 لاکھ ہے، جن میں سے بیشتر صوبہ سندھ میں رہتے ہیں۔
وہیں، صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہندو برادری کے لوگوں نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کیا۔
رواں برس جولائی میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں زیر تعمیر ایک مندر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کے تناظر میں ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکومت سے مندروں کی تعمیر اور تشویش کی شکار مقامی ہندو برادری کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔