عراق کے جنوبی شہر بصرہ میں گذشتہ ہفتے حکومت مخالف مظاہرے کے کوریج کے دوران ایک صحافی اور اس کے کیمرہ مین کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
بغداد میں امریکی سفارتخانے نے رپورٹر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ 39 سالہ عبد الصمد کا تعلق عراقی کیبل نیوز آوٹلیٹ 'ڈیجیٹل ٹی وی' سے تھا، جبکہ 37 سالہ کیمرا مین صفا غالی کی تصدیق فوکس نیوز کے حوالے سے کی گئی ہے۔
عینی شاہد نے الجزیرہ چینل کو بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو گھیر کو گولی مار دی۔ زخمی غالی کو ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن ان کی موت ہو گئی۔
سفارتخانے نے ان ہلاکتوں کو افسوسناک اور بزدلانہ قرار دیا ہے۔
سفارت خانے کا کہنا ہے کہ مسلح گروپز کے ذریعہ عراق میں جاری میڈیا اہلکاروں، سوشل میڈیا کارکنان اور اصلاح پسندوں کے قتل، اغوا، ہراسانی اور دھمکیو کے معاملے میں وہ سزا سے بچ نہیں سکتے ہیں۔
سفارتخانے نے مزید کہا کہ عراقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے حق کو برقرار رکھے، صحافیوں کو تحفظ دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ سماجی کارکنان بغیر کسی خوف کے پر امن طریقے سے احتجاج کرسکیں۔
سفارت خانے نے کہا کہ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جب مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ یہ قتل کس نے یا کس گروپ نے کیا تھا۔
مہلوک صحافی عبد الصمد نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں عراقی سیکیورٹی فورسز اور ایران پر تنقید کی تھی۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق، انہوں نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل ایک ویڈیو شائع کرتے ہوئے تنقید کی تھی کہ کس طرح عراقی سیکیورٹی فورسز نے بصرہ میں مظاہرین کو گرفتار کیا، لیکن بغداد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا اور نہ ہی انہیں زد و کوب کیا۔
اس سے کچھ روز قبل، انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ایران انتقام سے متعلق بھڑکانے کے لئے قاسم سلیمانی کی بیٹی کو استعمال کررہا ہے۔
انہوں نے لکھا تھا کہ پراکسی جنگ کے لیے ایران ہر طرح کی چیزوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
مبینہ طور پر یہ قتل سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تقریبا دو برس بعد ہوا ہے، جن کے قتل کا چرچہ دنیا بھر میں ہوا تھا۔