امریکی عدالت نے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'پاکستان توہین رسالت کے قوانین اور اس کے عدالتی نظام میں فوری طور پر اصلاح کرے۔ جس کی وجہ سے کسی کو بھی زیادتی کا سامنا ہوسکتا ہے'۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کیلی براؤن نے ایک ریلیز میں کہا ہے کہ 'ہم حیران، غمزدہ اور غصے میں ہیں کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری طاہر نسیم کو پاکستان کے ایک کورٹ کے کمرے میں دن کے اجالے میں قتل کردیا گیا'۔
کیلی براؤن نے کہا ہے کہ 'نسیم کو ان لوگوں نے الینوائے میں واقع اپنے گھر سے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ جس کے بعد انھیں پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کی زد میں لا کر قتل کردیا گیا'۔
براؤن نے بتایا کہ 'امریکی حکومت نسیم اور اس کے اہل خانہ کو 2018 میں نظربند کرنے کے بعد سے ہی ان کو امداد مہیا کر رہی تھی'۔
انہوں نے سینئر پاکستانی عہدیداروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لئے کہا ہے کہ 'یہ نہایت ہی شرمناک سانحہ ہے'۔
انہوں نے کہا ہے کہ 'ہم نسیم کے اہل خانہ کے ساتھ غمزدہ ہیں۔ ہم پاکستان سے گستاخانہ توہین مذہب کے قوانین اور اس کے عدالتی نظام میں فوری طور پر اصلاح کرنے کی اپیل کرتے ہیں، جس سے ایسی زیادتیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، ناکہ اسے کسی عوامی غضہ کا شکار بنایا جائے'۔
واضح رہے کہ اقلیتی احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے طاہر احمد نسیم کو پشاور کے ایک کمرہ عدالت میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ انھیں توہین رسالت کے مقدمے کا سامنا تھا۔
اس کے بعد نوجوان حملہ آور کی شناخت خالد خان کے نام سے ہوئی ہے۔ جو سخت سیکیورٹی کے درمیان عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا تھا، بعد میں اسے گرفتار کرلیا گیا۔
اس سے قبل نسیم کو دو برس قبل توہین مذہب کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
اطلاع کے مطابق پاکستان میں چار ملین اقلیتی گروہ احمدیوں کو کئی دہائیوں سے موت، دھمکیوں اور مسلسل نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کے توہین رسالت کے قانون میں خدا، اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے علاوہ دیگر مذہبی شخصیات کی توہین کرنے کے الزام میں مجرم قرار پائے جانے والے کسی بھی شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں اقلیتی برادری کے بہت سارے فرقے یعنی احمدیوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں پر توہین مذہب کے قانون کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔