مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ 'ٹویٹر' نے ایک متنازع 'ٹویٹ' کی وجہ سے امریکہ میں چینی سفارت خانے کا ٹویٹر اکاؤنٹ بلاک کر دیا ہے۔ اس ٹویٹ میں چینی سفارت خانے کی طرف سے چین کے مسلم اکثریتی صوبے 'سنکیانگ' میں بیجنگ کی پالیسیوں کا دفاع کیا گیا تھا۔
چینی سفارتخانے کے اکاؤنٹ نے رواں ماہ کے شروع میں ایک ٹویٹ شائع کی تھی جس میں چین کے سرکاری اخبار 'چائنا ڈیلی' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایغور خواتین اب بچے پیدا کرنے والی مشینیں‘ نہیں رہیں۔
چینی سفارت خانے کی اس متنازع ٹویٹ سے قبل سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ چین اپنے ہاں ایغور نسل کے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کرتے ہوئے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ٹویٹر کا یہ فیصلہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اقتدار کے آخری دن ان کی طرف سے چین پر تنقید کے بعد آیا۔
صدر ٹرمپ نے چین پر سنکیانگ صوبے کے مسلمانوں پر نسل کشی کا الزام عاید کیا تھا۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے ان کے اس موقف کی تائید کی ہے۔
آج ایک ٹویٹر کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے چینی سفارت خانے کی متنازع ٹویٹ پر کارروائی کی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چینی سفارت خانہ نے ہماری پالیسی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بغداد: دو خودکش بم دھماکوں میں 28 ہلاک، 73 زخمی
ڈونلڈ ٹرمپ کا جانا ونیزویلا کی فتح: نکولس مادورو
گذشتہ روز سبکدوش ہونے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین پر الزام لگایا تھا کہ چین نے ایغور مسلمانوں اور وہاں کی اصل مسلم کمیونٹی کو دبا کر نسل کشی کر رہی ہے۔
حقوق انسانی گروپوں نے بھی چین پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 'ری ایجوکیشن کیمپ' کے طور پر گذشتہ کچھ برسوں سے ایغور مسلمانوں کو حراست میں لے رکھا ہے'۔
ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمال مغربی چین کے صوبہ سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر ایغور مسلمان خواتین کی جبری نسبندی ہوئی ہے۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ تقریبا دس لاکھ ایغور مسلمان اور دوسرے لوگوں کو جن میں زیادہ تر مسلمان اقلیت شامل ہیں، حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت اس کو 'ری ایجوکیشن کیمپ' کہتی ہے۔
چینی حکومت نے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمان خواتین کے زبردستی اسقاط حمل، جبری نسبندی اور جنسی تشدد کے الزامات عائد کیے جانے کی تردید کی ہے۔
حالیہ چند برسوں میں ایغور مسلمانوں کے متعلق چین کا جو رویہ رہا ہے اس بارے بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوتی رہی ہے۔