وائٹ ہاؤس نے جمعہ کے روز کہا کہ امریکہ کووڈ-19 بحران پر قابو پانے میں بھارت کی مدد کرنے کے لیے اس کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جین ساکی نے اپنی روزانہ پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ عالمی وبا سے متاثر بھارت کے لوگوں کے تئیں ہمدردی رکھتا ہے اور اس بحران سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے سیاسی اور ماہرین کی سطح پر بھارتی عہدیداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں وبا کے متعلق اعلیٰ طبی مشیر ڈاکٹر انتھونی فاؤسی نے کہا کہ امریکہ وبا سے نمٹنے میں بھارت کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکہ کا بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام مرکز تکنیکی مدد مہیا کرانے کے لیے بھارت میں متعلقہ ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
اس دوران مختلف امریکی قانون سازوں نے بھارت میں کووڈ-19 کے معاملات میں غیر معمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بائیڈن انتظامیہ سے بھارت کو ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ایڈورڈ مارکی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ہمارے پاس ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لئے تمام وسائل موجود ہیں اور یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک ہی دن میں دنیا میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملے سامنے آئے ہیں۔
مارکی نے کہا کہ یوم ارتھ زمین اور ہر ایک کی بہتری کے لیے ہے۔ امریکہ کے پاس زیادہ ویکسین ہے لیکن ہم اسے بھارت جیسے ممالک کو فراہم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ہاؤس کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئر مین اور رکن پارلیمنٹ گریگری میکس نے کہا کہ وہ وبا کی وجہ سے بھارت میں پید صورتحال سے پریشان ہیں۔
رکن پارلیمنٹ ہیلی اسٹیونس نے کہا کہ وہ کووڈ 19 وبائی مرض کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے بھارت کے عوام کو تسلی دینا چاہتے ہیں۔ اسٹیونس نے کہا کہ میں بھارت میں اس وبا کا سامنا کرنے والے خاندانوں کے لئے دعا گو ہوں اور عالمی برادری سے ہم آہنگی کی درخواست کرتا ہوں تاکہ لوگوں کی مدد کی جاسکے۔
بھارتی پارلیمنٹیرین رو کھنہ نے پبلک ہیلتھ ماہر آشیش کے جھا کے ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کووڈ ۔19 بھارت میں خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ لوگوں کو ویکسین دینے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جھا نے کہا کہ امریکہ کے پاس ایسٹرا زینیکا ویکسین کی 3.5 سے 40 ملین اضافی خوراکیں ہیں، جو کبھی استعمال نہیں ہوں گی۔ کیا ہم انہیں بھارت پہنچا سکتے ہیں؟ اس سے ان کی مدد ہوگی۔
ماہر معاشیات اور وبا رمنن لکشمی نارائنن نے نیو یارک ٹائمز میں لکھا ہے کہ دوسری لہر کی وجہ سے بھارت کا صحت کا ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر ہے اور لاکھوں افراد کی زندگیاں اور معاش خطرے میں ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ انفیکشن سے زیادہ متاثر نئی دہلی اور دوسرے شہروں میں اسپتالوں میں مریضوں کو داخل کرنے سے منع کیا جا رہا ہے اور آکسیجن، بیڈ اور دیگر طبی سامان کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔