امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ کے باعث علاقے کے ہزاروں مکینوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا ہے۔
کیلیفورنیا کے جنگلات میں آگ کا نیا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔ محکمہ جنگلات کے حکام نے اعلان کیا کہ اس ماہ 40 لاکھ ایکڑ تک یہ آگ پھیل گئی ہے۔
لاس اینجلس سے 60 میل دور شمال میں واقع جھیل ہیوز کے نزدیک گھنے پہاڑی جنگلات میں آگ بڑھتی ہی جارہی ہے۔
حکام نے آگ کو لیک فائر کا نام دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس پر مکمل طور پر قابو پانے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔
امریکی فاریسٹ سروس کے ترجمان نے بتایا ہے کہ آگ سے اب تک 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی عمارتوں تباہ ہو چکی ہے۔
آتشزدگی کے باعث علاقے کے 500 سے زائد گھروں کو خالی کروا لیا گیا ہے۔
بتادیں کہ امریکہ میں ہر برس جنگلات میں آتش زدگی کے سینکڑوں واقعات پیش آتے ہیں جن سے لاکھوں ایکڑ رقبہ متاثر ہوتا ہے، لیکن رواں ماہ آگ کی شدت نے پچھلا تمام ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
کیلیفورنیا کے محکمہ برائے جنگلات اور فائر پروٹیکشن کے ترجمان سکاٹ میک لین نے کہا ہے کہ 'آگ کی شدت بڑھتی ہی جارہی ہے'۔
آگ کی لپیٹ کا مطلب یہ ہے کہ شعلوں سے دور رہنے والے لوگوں کو بھی سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
غیر صحتمند ہوا اور دھواں کی وجہ سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ اس آگ نے کیلیفورنیا میں آسمان کو دھندلا کردیا اور کچھ دن سورج کو بھی مدھم کردیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے کیلیفورنیا کو بہت زیادہ خشک کردیا ہے، یعنی درخت اور دوسرے پودے زیادہ آتش گیر ہیں۔
مائیک فلاینیگن جو کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹا میں وائلڈ لینڈ فائر سائنس شعبہ کے ذمہ دار ہیں، کا کہنا ہے کہ 'کیلیفورنیا اور پورے امریکہ میں اس آگ سے موسمیاتی تبدیلی آرہی ہے'۔