اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فمزیلے ملامبو نے خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے لیے منائے جانے والے عالمی دن کے موقع پر کہا کہ دنیا کے اس وقت نصف سے زائد ممالک میں ’ازدواجی ریپ‘ یا ’مرضی کے اصولوں کے مخالف‘ ہونے والے ریپ کو مجرمانہ عمل قرار دینے کے قوانین موجود نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ریپ کرنے والوں کے احتساب کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کو اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کرنے کی صلاحیت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ متاثرین کے ساتھ تعاون کے لئے ،کرمنل جسٹس پراسیس، کے ذریعہ میکانزم تیار کیا جانا چاہئےجس کی رسائی قانون، پولیس اور انصاف کی فراہمی کے نظام سمیت صحت اور سماجی سروسز تک ہو‘‘۔
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر ان کی ایک خواہش پوری ہوسکے تو وہ دنیا سے ریپ کے خاتمہ کی خواہش کریں گی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’’ریپ تنہائی میں کیا گیا مختصر سا عمل نہیں بلکہ اس کی وجہ سے جسمانی و ذہنی نقصانات ہوتے ہیں، اس سے زندگیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس کے دیرینہ اور تباہ کن اثرات اہلخانہ، دوست، شراکت داروں اور دیگر افراد پر بھی ہوتے ہیں‘‘۔
دوسری جانب کم عمر میں کی گئی شادیوں کی وجہ سے جوان سال لڑکیوں کو ازدواجی ریپ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے بعد وہ وہاں سے بھاگنے اور کہیں پناہ لینے کی خواہش مند ہوتی ہیں۔
بیان کے مطابق’’بہت کم خواتین ایسی ہیں جو ریپ کے بعد ماہرین کی مدد طلب کرتی ہیں اور ان میں سے صرف 10 فیصد ہی پولیس کے پاس جاتی ہیں‘‘۔
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کامزید کہنا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے پولیس میں خواتین کی تعداد میں اضافے کی تجویز بھی دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’پولیس میں خواتین کی تعداد کے اضافے اور ان کی تربیت اہم ہے تاکہ متاثرین کا بھروسہ بحال ہوسکے اور انہیں احساس ہو کہ ان کی شکایت پر ہر مرحلہ میں سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ’’جو ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا طاقتور ہتھیار ہے جس سے متاثرہ شخص ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ اس کی آواز کو بھی دبایا جاتا ہے۔