اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے کسانوں کا احتجاج دو ماہ سے بھی زیادہ طویل ہوتا جارہا ہے۔ ملک بھر کے کسان مرکزی حکومت کے مبینہ ظلم وزیادتی پر مبنی زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ 26 جنوری یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے اپنی پوری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ بھارت کے کسانوں کو دنیا بھر کے کسان بالخصوص سکھوں کی حمایت حاصل ہے۔
26 جنوری بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکہ اور آس پاس کی ریاستوں کے درجنوں مظاہرین نے کسانوں کی حمایت میں نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی میں بھارتی سفارت خانے کے باہر ریلی نکالی، مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بھارت میں کسانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہیں پہنچنا چاہیے۔ ساتھ ہی کسانوں کے خلاف منظور کیے گئے زرعی قوانین کو جلد واپس لیا جائے۔ مجمع میں شامل بہت سے لوگوں نے پیلے رنگ کے 'خالصتانی' پرچم اٹھا رکھے تھے، وہ بھارت مخالف اور مرکزی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگارہے تھے۔
بتایا جارہا ہے کہ امریکہ میں واقع سکھ ڈی ایم وی یوتھ اور سنگت کے زیر اہتمام ہونے والے ایک مظاہرے میں نئے بھارتی زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے بھارتی سفارت خانے کے سامنے سیکڑوں افراد جمع ہوئے، اورزرعی قوانین کے خلاف نعرے لگائے۔ واضح رہے کہ نریندر مودی حکومت نے ستمبر میں ملک کے بڑے پیمانے پر زراعت کے شعبے کے قوانین میں ردوبدل کرتے ہوئے وسیع کوشش کے حصے کے طور پر نئے قوانین منظور کیے تھے۔
واشنگٹن کے مظاہرین میں سے ایک معروف احتجاجی نریندر سنگھ نے ان قوانین کو "بھارت کی جانب سے انسانی حقوق اور جمہوریت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔" انہوں نے کہا کہ ہم ہر سال 26 جنوری کو یوم سیاہ مناتے ہیں، لیکن اس سال ہم بھارت میں کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، نریندر سنگھ نے مزید کہا، ہمارے احتجاج میں صرف سکھ ہی نہیں ہیں بلکہ ملک بھر سے تمام مذہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے احتجاجی ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کے رہائشی ادھم سنگھ نے کہا، "ہم تشدد پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر بھارتی حکومت تشدد چاہتی ہے تو سکھ بھی پرتشدد ہوجائیں گے۔"
یہ بھی یاد رہے کہ ایک ماہ قبل واشنگٹن ڈی سی میں بھارتی سفارت خانے کے قریب مہاتما گاندھی کے مجسمے پر خالصتانی پرچم لپیٹا ہوا دیکھا گیا تھا جہاں مظاہرین اسی طرح کا مظاہرہ کررہے تھے، لہٰذا اس واقعہ کے مدنظر اس بار سفارت خانے اور گاندھی کے مجسمے کے آس پاس حفاظتی انتظامات سخت کردیئے گئے تھے۔
احتجاجیوں کے ایک گروپ کے ممبروں نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ اگر ان زرعی قوانین کو واپس نہیں لیا گیا تو وہ 15 اگست کو سفارت خانے کے باہر ایک بڑا احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔