یہاں تک کہ انہوں نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کی جانب سے گزشتہ سال دسمبر میں جموں کشمیر کے معاملے پر بلائی گئی امریکی ہاوس فارن ریلیشنز کمیٹی کی میٹنگ میں انہیں (حارث کو) شامل نہ کرنے پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈیموکریٹس روایتی طور پر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے معاملے پر زیادہ صاف گو رہے ہیں، جو عمومی طور پر نئی دلی کو راس نہیں آتا ہے کیونکہ اسے ان معاملات پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈیموکریٹس ماحولیا اور گلوبل وارمنگ کے معاملات پر بھی حساس ہیں اور وہ بھارت کی حالیہ ماحولیاتی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناسکتے ہیں۔
بیرونی ممالک میں مقیم کسی بھی بھارتی شہری کی کامیابی پر فخر کا اظہار کرنا حالیہ برسوں کے دوران بھارت سرکار کی روایت بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی نژاد کملا حارث، جنہیں امریکی سیاسی جماعت، ڈیموکریٹک پارٹی نے ملک کے نائب صدر کے عہدے کے لئے نامزد کیا ہے، ان کی نامزدگی پر بھارت سرکار کا کوئی ردعمل نہ آنا ایک حیران کن بات ہے۔
کملا حارث اپنے بھارتی نژاد ہونے پر فخر کرتی ہیں۔ وہ اپنی ماں، جنہوں نے تامل ناڈو سے امریکا ہجرت کی تھی، سے سیکھی ہوئی باتوں پر بھی فخر کرتی ہیں۔ نومبر میں ہونے والی امریکی صدارتی انتخاب میں حارث امریکا کے اس اہم عہدے پر فائز ہوسکتی ہیں۔
کیربین، پرتگال، ائرلینڈ، سنگاپور، فیجی اور ماریشش جیسے کئی ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر بھارت نژاد شہریوں کے فائز ہونے کی کئی مثالیں پہلے ہی موجود ہیں۔ اب ایک بھارتی نژاد کا امریکا کے نائب صدر کے عہدے کے لئے منتخب ہوجانے کے امکانات ہیں۔ اس ضمن میں میڈیا اور بھارت و امریکا میں بھارتی شہریوں کی جانب سے اظہار مسرت کیا جارہا ہے، جو حق بجانب ہے۔
حکومت کی جانب سے اس پر خاموشی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے عیاں وجہ یہ ہے کہ بھارتی سرکار نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ قربت بڑھا دی تھی اور بھارت سرکار یہ تاثر دینے کےلئے کوششیں کرتی رہی ہے، کہ ڈونالڈ ٹرمپ بھارت کے حامی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک نے بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن بھارت کی جانب سے صرف صدر ٹرمپ کے ساتھ کھلے عام پینگیں بڑھانا ڈیموکریٹک پارٹی کو پسند نہیں آیا ہے۔ اس لیے کئی لیڈران نریندرا مودی کی قیادت والی سرکار کے بعض حالیہ اقدامات، جن میں جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے اور شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو پاس کرنے کے اقدامات شامل ہیں، پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی صدر براک اوبامہ اور مودی کے درمیان قریبی تعلقات رہے ہیں۔
حارث اُن امریکی لیڈروں میں شامل ہیں، جنہوں نے جموں کشمیر کی صورتحال پر کھلے عام نئی دلی کی نکتہ چینی کی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کی جانب سے گزشتہ سال دسمبر میں جموں کشمیر کے معاملے پر بلائی گئی امریکی ہاوس فارن ریلیشنز کمیٹی کی میٹنگ میں انہیں (حارث کو) شامل نہ کرنے پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ سال ستمبر میں حارث نے ہوسٹن میں منعقد کئے گئے ’’ہاوڈی مودی‘‘ تقریب، جس میں بھارت امریکا پارٹنر شپ کا جشن منایا گیا، میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
نئی دلی میں بعض ماہرین نجی طور پر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی غیر مستحکم شخصیت کو دیکھ ہی نئی دلی نے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار جو بیدن کی ساتھی کے بطور حارث کی نامزدگی پر کسی بھی ردعمل کا اظہار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی مودی سرکار ایک ایسے وقت میں جب امریکی سرکار کی جانب سے بھارت کو تجارتی مقامیاتی نظام (جنرلائزڈ سسٹم پررفرینس)، یعنی ترجیح دینے کا امکان ہے، ٹرمپ کو خفا ہونے کا کوئی موقعہ نہیں دینا چاہتی ہے۔
دوسری وجہ ہے کہ بھارت سرکار ایک ایسے وقت میں جب چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی جاری ہے اور چین اس خطے کے حوالے سے پاکستان کی پشت پناہی کررہا ہے، جسے بھارت اپنا حصہ قرار دے رہا ہے، موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈیموکریٹس روایتی طور پر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے معاملے پر زیادہ صاف گو رہے ہیں، جو عمومی طور پر نئی دلی کو راس نہیں آتا ہے کیونکہ اسے ان معاملات پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈیموکریٹس ماحولیا اور گلوبل وارمنگ کے معاملات پر بھی حساس ہیں اور وہ بھارت کی حالیہ ماحولیاتی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناسکتے ہیں۔
ان سارے وجوہات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ کملا حارث کی وجہ سے بھارت کو کوئی خاص فائدہ مل سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت سرکار نے ’ہوڈی مودی‘ تقریب کا انعقاد کرتے ہوے ٹرمپ کے دوبارہ بطور صدر منتخب ہوجانے کے حوالے سے ایک طرح کا جوا کھیلا ہے۔ کیونکہ اس تقریب کے ذریعے امریکا میں مقیم بھارت شہریوں کو ٹرمپ کو ووٹ دینے کی صلاح دی گئی ہے۔
اسی طرح احمد آباد میں منعقدہ ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کے ذریعے ٹرمپ کو بھارت کا ایک اہم دوست قرار دینے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود امریکی نائب صدر کے عہدے کےلئے حارث کو نامزد کئے جانے کی وجہ سے امریکا میں مقیم بھارتی شہریوں میں خوشی کی لہر دوڈ گئی ہے اور وہ امکانی طور پر کیلی فورنیا سے انتخاب لڑنے والی اس بھارتی نژاد خاتون کے حق میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
عمومی طور پر بھارت دُنیا بھر میں مقیم اپنے 30 ملین لوگوں کے حوالے سے فخر محسوس کرتا ہے۔ یہ بھارتی شہری ملک کی اقتصادیات کو 80 ملین ڈالر کا ترسیلاتِ زر فراہم کرتے ہیں۔ بھارت سرکار دنیا بھر میں موجود اپنے شہریوں کے ایک خطیر کنٹریبیوشن کا آئے دن اعتراف کرتی رہتی ہے جبکہ ہر سال پرویشی بھارتیہ دیوس (نان ریذیڈنٹ انڈین ڈے) کے انعقاد پر بعض لوگوں میں اعزازات تقسیم کرتی ہے۔
امریکا اُن ممالک میں سرِ فہرست ہے، جہاں بھارتی شہریوں کی پہلی اور اب دوسری نسل مقیم ہوگئی ہے اور وہ اپنے ملک کےلئے باعث فخر ہیں۔ ان بھارتی نژاد شہریوں نے مختلف پیشوں جیسے کہ تعلیمی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور تجارتی شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لویا منوایا ہے۔
امریکا میں مقیم چار ملین بھارتی نژاد شہری، جو دیگر ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دولت مند ہیں، در اصل بھارت امریکا معاشی پارٹنرشپ اور تہذیبی رشتوں کو پروان چڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکا میں مقیم سُندر پچی اور ستیا نادلیلا جیسے بھارتی نژاد شہری، جو گوگل،مائیکروسافٹ، اڈوب اور آئی بی ایم، جیسی بڑی ہائی ٹیک کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، کو اپنے بھارتی نژاد ہونے پر فخر ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ کیلی فورنیا کی سیلکون وادی میں رہ رہے ہیں۔ یہ بھارتی نژاد شہری دونوں بھارت اور امریکا کی معاشی ترقی میں ایک انجن کا کام کرتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی نژاد ابھیجیت بینرجی کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔
لیکن یہ حیران کن ہے، کہ کملا حارث، کو امریکا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نے نائب صدر کے عہدے کےلئے ٹکٹ دیئے جانے پر بھارت میں متوقع جوش و خروش دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر بھارت بیرونی ممالک میں اپنے شہریوں کے اہم کارناموں پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔