امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کے اراکین نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا، دوحہ معاہدے کے بعد کی صورت حال، اور طالبان کے اقتدار میں آنے سمیت افغانستان سے متعلق متعدد امور پر وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، جوائنٹ چیف کے چیئرمین جنرل مارک ملی اور امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکینزی سے چھ گھنٹے تک سخت سوالات کیے گئے۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل مارک ملی نے 20 سالہ جنگ کو اسٹریٹجک ناکامی قرار دیا لیکن انھوں یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق افغانستان میں جنگ کو روکنے کی ضرورت ہے تاہم امریکہ کو وہاں چند ہزار فوجیوں کو تعینات رکھنا چاہیے تھا۔
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل مارک ملی نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ انہوں نے صدر جو بائیڈن کو کیا مشورہ دیا تھا جب وہ اس بات پر غور کر رہے تھے کہ افغانستان سے فوجیں واپس بلائیں یا نہیں۔
انہوں نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ کابل میں حکومت کے خاتمے اور طالبان حکومت کی واپسی کو روکنے کے لیے کم از کم 2500 فوجی افغانستان میں تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔
ملی نے اس جنگ کو ایک اسٹریٹجک ناکامی قرار دیا جس میں 2461 امریکیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ 15 اگست کو انہوں نے افغانستان کے دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کے بارے میں کہا کہ کابل اب دشمن کے راج میں ہے۔
جنرل ملی نے کہاکہ طالبان دہشت گرد تنظیم تھی اور رہے گی، انہوں نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط ختم نہیں کیے ہیں۔
انہوں نے کہا '' یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایا طالبان اپنی طاقت کو مضبوط بنا سکتے ہیں یا ملک مزید خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا، لیکن ہمیں کابل سے ہونے والے دہشت گرد حملوں سے امریکی شہریوں کو بچاتے رہنا ہوگا۔"
جنرل ملی نے مزید کہا کہ القاعدہ یا داعش (خراسان) جیسے گروپ 12سے 36 ماہ کے دوران خود کو منظم کرسکتے ہیں اور وہ امریکا پر حملہ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاید امریکہ کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ افغانستان کی افواج کو امریکی فوجیوں اور ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ منحصر رکھا گیا تھا۔
سنٹرل کمانڈ کے سربراہ اور امریکی جنگ کے آخری مہینوں کی نگرانی کرنے والے جنرل فرینک میکنزی نے کہا کہ وہ ملی کی بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن انھوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کر دیا کہ اس نے بائیڈن کو کیا مشورہ دیا تھا۔
سینیٹر ٹام کاٹن نے ملی سے پوچھا کہ جب ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا تو انہوں نے استعفی کیوں نہیں دیا، ملی نے کہا "یہ ضروری نہیں کہ صدر اس مشورے سے متفق ہوں۔" یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کیونکہ ہم نے اسے بطور جنرل مشورہ دیا ہے اور بطور آرمی آفیسر استعفیٰ دینا صرف اس وجہ سے کہ میرے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا یہ سیاسی نافرمانی کا ناقابل یقین عمل ہوگا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے گزشتہ 20 برس تک افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے حوالے سے جب پوچھا گیا کہ اس دوران ناکامی کی وجہ کیا رہی تو ان کا کہنا تھاکہ ہم نے افغان حکومت پر بہت زیادہ بھروسہ کرلیا تھا۔ اورامریکا افغان مسلح افواج میں موجود بدعنوانی کی گہرائی اور کمزور قیادت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے انہوں نے فوج کے طیاروں کے ذریعے لوگوں کو نکالنے کی مہم کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے مستقبل کے خطرات سے نمٹنا مشکل ہوگا لیکن یہ مکمل طور پر ممکن ہے۔
انہوں نے کمیٹی سے کہا 'ہم نے ایک ریاست بنانے میں مدد کی لیکن ہم ایک قوم نہیں بنا سکے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغان فوج جسے ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے تربیت دی انہوں نے آسانی سے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس نے ہم سب کو حیران کر دیا۔
آسٹن نے 14 اگست کو حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر شروع ہونے والے انخلاء آپریشن میں کوتاہیوں کو تسلیم کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فضائی سروس کے ذریعے انخلاء ایک تاریخی کامیابی تھی، جس نے طالبان کے دور میں 124،000 لوگوں کو نکالا ہے۔انہوں نے تاہم کہا کہ افغانستان میں 20 سال کی فوجی کارروائیوں سے امریکا کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا "ہم سب نے افغان شہریوں کی تصاویر دیکھی ہیں جو رن وے پر طیاروں کے پیچھے خوف سے بھاگ رہے ہیں۔" ہم سب کو ہوائی اڈے کے باہر الجھن یاد ہے۔ لیکن 48 گھنٹوں کے اندر ہمارے فوجیوں نے امن بحال کر دیا۔
آسٹن نے کہا کہ '' یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی انخلا تھا جسے صرف 17 دنوں میں مکمل کیا گیا جس میں ہم نے ایک لاکھ 24 ہزارسے زیادہ افراد کو وہاں سے نکالا۔ ہم نے تیزی سے بہت سے لوگوں کو کابل سے باہر منتقل کیا جس کی وجہ سے انتظامات اور لوگوں کی اسکریننگ کے بعض مسائل پیداہو گئے۔‘‘
امریکی وزیر دفاع نے 26 اگست کو ہونے والے خودکش بم دھماکے پر افسوس کا اظہار بھی کیا، اس دھماکے میں کابل کے ہوائی اڈے پر 13 امریکی فوجی اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھےاور 29 اگست کو امریکی ڈرون حملے میں 7 بچوں سمیت 10 افغان شہری مارے گئے تھے، تاہم امریکی وزیر دفاع نے منصوبہ بندی کے عمل کا دفاع کیا۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے بعض اراکین کا کہنا تھا کہ 20 سالہ جنگ کا جس انداز میں خاتمہ ہوا وہ امریکا کے لیے شرمنا ک تھا۔
ریپبلکنز نے صدر جو بائیڈن کے 30 اگست تک تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کے فیصلے پر اپنے حملوں کو مزید تیز کر دیا ہے اور وہ کابل میں خودکش بم دھماکے کے بارے میں مزید معلومات کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں انخلا کے آخری دنوں میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد امریکی جرنیلوں کی کانگریس کے سامنے یہ پہلا بیان تھا جس سے امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوا۔