بلنکن نے این پی آر ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا 'ایران کو پہلے قدم کے طور پر معاہدے پر عمل کرنا ہوگا۔ صدر جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے۔ سفارتکاری کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔ ایران اب بھی اس معاہدے پر عمل پیرا نہیں ہے۔ تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا کرتا ہے۔'
قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید دباؤ ڈالنے کے لئے جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کردیا تھا، لیکن موجودہ صدر جو بائیڈن اس معاہدے پر واپس آنے اور ایران کے میزائل پروگرام اور مغربی ایشیاء کے دیگر امور پر بات چیت کا راستہ اپنانے کی بات کی تھی۔
بلنکن نے جوزف بائیڈن کے اس بیان کی تائید کی کہ ایران بغیر کسی معاہدے کے مہلک ہتھیاروں کے مواد تیار کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا 'اس لئے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایران کو جوہری معاہدے میں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شاید ایران اب بھی اس معاہدے پر واپس جانے کے لئے تیار ہے۔ اس سے اس کی معیشت کو کچھ پابندیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے کے لئے دونوں فریقوں میں اب بھی دلچسپی ہے'۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ روس کے ساتھ بھی اسٹریٹجک استحکام لانے کے لئے دیگر راستوں کی تلاش جاری رکھے گا۔
انٹرویو کے دوران بلنکن نے کہا 'ہم روس کے ساتھ اسٹریٹجک استحکام کو آگے بڑھانے کے دوسرے طریقوں پر نظر ڈالیں گے، بھلے ہی ہم ان کے (روس) ذریعہ کئے جارہے کاموں کے بارے میں بالکل واضح ہیں لیکن ہمیں دونوں محاذوں پر کام کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے'۔