امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ چین کے تائیوان پر حملہ کرنے کی صورت میں امریکہ تائیوان کی دفاع میں سامنے آئے گا۔ بائیڈن نے یہ بات جمعرات کو سی این این ٹاؤن ہال میں منعقدہ اجلاس میں کہی۔
اجلاس کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو کیا امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا؟ جس پر بائیڈن نے کہا، ’ہاں ، ہم ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہیں‘۔
صدر بائیڈن کا مزید کہنا ہے کہ امریکا چین کے ساتھ تنازع تلاش نہیں کر رہا لیکن بیجنگ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ واشنگٹن اپنا موقف تبدیل نہیں کرے گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ لوگوں کو واشنگٹن کی فوجی طاقت کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ’چین، روس اور تمام دنیا جانتی ہے کہ ہم دنیا کی تاریخ کی سب سے طاقتور فوج ہیں۔‘
جو بائیڈن کے تائیوان کا دفاع کرنے کے بیان کے جواب میں بیجنگ حکومت نے کہا کہ امریکا کو تائیوان کے معاملے پر احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور کسی کو بھی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے چینی عوام کے مضبوط عزم اور صلاحیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ چین کے پاس سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
چین نے جمعہ کے روز کہا کہ تائیوان کے مسئلے پر سمجھوتہ یا رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے چین کے دیرینہ دعوے کو دہرایا کہ یہ جزیرہ اس کا علاقہ ہے۔
چین نے حال ہی میں جزیرے کے قریب جنگی طیارے اڑانے اور ساحل سمندر پر اترنے کی مشق کرکے تائیوان کو طاقت کے ذریعے اپنے کنٹرول میں لانے کی دھمکی کو بڑھا دیا ہے۔
واضح رہے کہ تائیوان اور چین کے درمیان فوجی کشیدگی 40 برسوں کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ تائیوان کے وزیر دفاع کا رواں ماہ ہی کہنا تھا کہ چین تائیوان پر 2025 تک ’مکمل پیمانے پر‘ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں چین کے 38 جنگی طیاروں نے تائیوان کی سرحد پر پروازیں بھی کی تھیں۔ چین کی حکومت کئی بار یہ اعلان کر چکی ہے وہ تائیوان کو اپنے ملک میں شامل کرے گی۔