اس ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے عراق میں امریکی فوجی کردار کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ 5 جنوری کو بغداد میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملہ میں ہلاکت کے بعد دونوں سربراہوں کی پہلی ملاقات ہے۔
عالمی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے داعش کے خلاف جنگ سمیت معاشی اور سلامتی شراکت داری کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔
وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک خودمختار، مستحکم اور خوش حال عراق کے بارے میں امریکہ کے اٹل عزم کا اعادہ کیا۔
دوسری جانب عراقی صدر کے دفتر سے ذرائع نے بتایا کہ براہم صالح نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکی ڈرون حملے کے بعد فورسز کی واپسی کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
اطلاع کے مطابق ٹرمپ نے عراقی صدر سے کہا کہ وہ عراق میں نہیں رہنا چاہتے اور بے مثال انداز میں فورسز کا انخلا کریں گے لیکن یہ انخلا واشنگٹن کے لئے باعث توہین ہوگا۔
علاوہ ازیں عراقی صدر نے ڈاووس میں عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ پارلیمانی ووٹ ’ناشکری یا دشمنی کی علامت نہیں ہے‘ بلکہ اپنے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا جواب تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مفاد میں نہیں کہ دوسروں کی قیمت پرصرف ایک طرف سے اتحاد کریں جبکہ دونوں فریقین ہماری خودمختاری اور آزادی کا احترام کررہے ہوں۔
عراقی صدر نے مزید کہا کہ ’’تعلقات کی نوعیت سے متعلق عراق کو رہنمائی کی ضرورت نہیں‘‘۔
خیال رہے کہ ایران نے القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل فائر کئے تھے۔
ایران نے میزائل حملہ میں 80 امریکی شدت پسند ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم امریکہ نے تہران کے دعویٰ کو مسترد کردیا تھا۔
اس سے قبل یعنی گزشتہ برس دسمبر میں شمالی عراق میں ہونے والے راکٹ حملہ میں ایک امریکی ٹھیکیدار مارا گیا تھا جس کے جواب میں امریکی فضائی کارروائی میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے 25 اراکین ہلاک ہوگئے تھے۔
ٹرمپ-براہم صالح کی ملاقات: امریکی فوج کو نہ ہٹانے پر اتفاق
ڈاووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے 50ویں سالانہ اجلاس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے عراقی ہم منصب براہم صالح کی ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے عراق میں امریکی فوجی کردار کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ 5 جنوری کو بغداد میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملہ میں ہلاکت کے بعد دونوں سربراہوں کی پہلی ملاقات ہے۔
عالمی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے داعش کے خلاف جنگ سمیت معاشی اور سلامتی شراکت داری کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔
وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک خودمختار، مستحکم اور خوش حال عراق کے بارے میں امریکہ کے اٹل عزم کا اعادہ کیا۔
دوسری جانب عراقی صدر کے دفتر سے ذرائع نے بتایا کہ براہم صالح نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکی ڈرون حملے کے بعد فورسز کی واپسی کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
اطلاع کے مطابق ٹرمپ نے عراقی صدر سے کہا کہ وہ عراق میں نہیں رہنا چاہتے اور بے مثال انداز میں فورسز کا انخلا کریں گے لیکن یہ انخلا واشنگٹن کے لئے باعث توہین ہوگا۔
علاوہ ازیں عراقی صدر نے ڈاووس میں عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ پارلیمانی ووٹ ’ناشکری یا دشمنی کی علامت نہیں ہے‘ بلکہ اپنے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا جواب تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مفاد میں نہیں کہ دوسروں کی قیمت پرصرف ایک طرف سے اتحاد کریں جبکہ دونوں فریقین ہماری خودمختاری اور آزادی کا احترام کررہے ہوں۔
عراقی صدر نے مزید کہا کہ ’’تعلقات کی نوعیت سے متعلق عراق کو رہنمائی کی ضرورت نہیں‘‘۔
خیال رہے کہ ایران نے القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل فائر کئے تھے۔
ایران نے میزائل حملہ میں 80 امریکی شدت پسند ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم امریکہ نے تہران کے دعویٰ کو مسترد کردیا تھا۔
اس سے قبل یعنی گزشتہ برس دسمبر میں شمالی عراق میں ہونے والے راکٹ حملہ میں ایک امریکی ٹھیکیدار مارا گیا تھا جس کے جواب میں امریکی فضائی کارروائی میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے 25 اراکین ہلاک ہوگئے تھے۔
Urdu
Conclusion: