ETV Bharat / international

بھارت اور امریکا کے درمیان مضبوط تعلقات میں دونوں کے مفادات مضمر

وزیر اعظم مودی کی جانب سے 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا تعرہ لگانے کے باوجود بھارت کے ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کے تعلقات متاثر کیوں نہیں ہوں گے؟ (اس مضمون کو سینئر صحافی کرشنا ترپاٹھی نے خاص ای ٹی وی بھارت کے لیے تحریر کیا ہے)

A strong relationship between India and the United States is essential to the interests of both
بھارت اور امریکا کے درمیان مضبوط تعلقات میں دونوں کے مفادات مضمر
author img

By

Published : Nov 14, 2020, 4:08 PM IST

Updated : Nov 16, 2020, 3:42 PM IST

تین اعلیٰ بھارتی سفاتکاروں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی شہر ہوسٹن میں منعقدہ جلسے میں مدعو کرنے اور اُن کی دوسرے مرحلے کی انتخابی جیت کے لئے 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود، نئی امریکی سرکار، یعنی ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن کی انتظامیہ، جو اگلے سال وہائٹ ہاوس میں چارج سنبھالے گی، کے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

بھارت میں کلیدی حزبِ اختلاف انڈین نیشنل کانگریس، نے وزیر اعظم مودی کو گزشتہ سال 'ہوڈی مودی' تقریب میں 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا نعرہ بلند کرنے پر ہدف تنقید بنایا تھا۔

جو بائیڈن کی جیت پر ردعمل

بی جے پی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ دو لیڈروں یعنی وزیر اعظم مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آپسی تعلقات کے نتیجے میں جو بائیڈن کی زیر قیادت انتطامیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات متاثر ہوں گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی واحد عالمی لیڈر نہیں ہیں، جنہیں وہائٹ ہاوس میں آنے والی نئی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کا مسئلہ درپیش ہوگا بلکہ دیگر کئی عالمی لیڈروں جن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، برازیل کے صدر جیئر بولسونارو اور بعض یورپی لیڈروں کو بھی نئی امریکی انتظامیہ کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔

کئی اعلیٰ سفارتکاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین نے ان خدشات کو مسترد کردیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں بھارت امریکا تعلقات متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

بھارتی سفاتکار میرا شنکر، جو امریکی صدر بارک اوبامہ کے دورِ اقتدار میں امریکا میں بھارت کی سفیر رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے، ’’میرے خیال سے امریکا میں دونوں پارٹیوں رہپبلیکن اور ڈیموکریٹس میں اس بات پر اتفاق ہے کہ امریکا کو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہیں، اسلئے امریکی سرکار اس بات سے قطع نظر کہ بھارت میں کس کی حکومت ہے، اس کے ساتھ کام کرے گی۔‘‘

سفارتکار راجیو بھاٹیہ، جو جنوبی افریقہ، میکسکو، میانمار اور کینیا میں بطور بھارتی سفیر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان آپسی تعلقات، امریکی انتطامیہ کے ساتھ بھارت کے رشتے متاثر نہیں کریں گے۔ کیونکہ دونوں ممالک کے مفادات اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ رشتے استوار کرنے پر مجبور کریں گے۔‘‘ بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا وزیر اعظم مودی کےلئے ضروری تھا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کچھ مسائل تھے۔ مودی کی جانب سے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا فائدہ ملا ہے۔ بھارت اور چین کے سرحدی تناو کے دوران امریکا بہت معاون رہا ہے۔

سفارتکار وشنو پرکاش، جو خارجہ امور کے ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ خاص طور سے اس صورتحال میں جب دونوں ممالک کو چین کی جانب سے یکساں جارحیت کا سامنا ہے۔

صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل تھا

سفارتکار میرا شنکر کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب جنوری 2016ء میں صدر ٹرمپ نے حکومت سنبھالی تو اُس وقت مودی سرکار کو صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم مودی کو سابق ٓصدر بارک اوبامہ کا قریبی تصور کیا جاتا تھا۔ جنوری 2015ء میں وزیر اعظم مودی کی دعوت پر اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوبامہ نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔

میرا شنکر نے ای ٹی وی بھارت کو مزید کہا، ’’ صدر ٹرمپ کے ابتدائی ایام میں ہمیں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کےلئے وقت حاصل کرنے اور اُن کی دعوت حاصل کرنے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ صدر ٹرمپ سمجھتے تھے کہ وزیر اعظم مودی صدر اوبامہ کے بہت قریبی رہے ہیں۔‘‘

وشنو پرکاش، جو جنوبی کوریا اور کینیڈا میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ بھارتی سفیر مسٹر بائیڈن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں تمام کوششیں کریں گے ، جس طرح سے مودی سرکار نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی تھیں۔ وشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا، ’’سیدھی بات یہ ہے کہ اقتدار میں خواہ کوئی بھی ہو، ہمیں اُس سے نمٹنا ہوگا۔‘‘

ڈیموکریٹس کے ساتھ دشوار گزار تعلقات

وزیر اعظم مودی کی ہوسٹن ریلی ڈیموکریٹس کے ساتھ مودی سرکار کے تعلقات میں تلخی کی واحد وجہ نہیں تھی۔ کئی سینئر دیموکریٹ لیڈران، جن میں نائب صدر کے بطور منتخب ہونے والیں کملا ہیئرس، بھارتی نژاد ڈیموکریٹ کانگریس وومن پرمیلا جئے پال اور کئی دیگر ڈیموکریٹ لیڈران نے انسانی حقوق کے معاملات اور جموں کشمیر میں خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد عائد کی گئیں پابندیوں پر مودی سرکار کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

گزشتہ سال وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے امریکا میں بھارت امریکا منسٹریل میٹنگ میں شرکت کرنے سے ہاوس آف فارن افیئرز کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کرنے سے انکار کیا تھا۔ کیونکہ امریکی انتظامیہ نے اس میٹنگ میں پرائمیلا جئے پال کی شرکت منسوخ کرنا نہیں مانا تھا۔ چینئی میں پیدا ہوئیں پرائمیلا جئے پال پہلی انڈین ایمریکن خاتون ہیں جو ہاوس آف ریپرزنٹیٹوز کے لئے منتخب ہوئی ہیں۔

جئے شنکر کی جانب سے میٹنگ میں شرکت سے انکار کی وجہ پرائمیلا جئے پال تھیں، جس نے امریکی کانگریس میں اُس قرار داد کو پیش کرنے کی حمایت کی تھی، جس میں جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے بعد یہاں پابندیاں ہٹانے کی مانگ کی گئی تھی۔

کملا ہیرس، جو پہلی انڈین امریکن خاتون ہیں، جنہوں نے سنیٹ کی سیٹ جیت لی تھی اور اب وہ امریکا کی نائب صدر منتخب ہوچکی ہیں، کے علاوہ ایک اور ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر الزیبتھ وارن نے میٹنگ، جس میں پائمیلا جئے پال موجود تھیں، میں شرکت نہ کرنے پر جئے شنکر کو ہدف تنقید بنایا۔ تاہم جئے شنکر نے ڈیموکریٹس کی تنقید کے باوجود اپنے فیصلے پر کاربند رہے۔

مشترکہ مفادات دونوں ملکوں کے رشتوں کو استوار کریں گے

اعلیٰ سفارتکاروں ، جن کے ساتھ ای ٹی وی بھارت نے رابطہ کیا کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی وجہ سے نئی امریکی انتظامیہ میں بھارت امریکا تعلقات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔

راجیو بھاٹیہ کا کہنا ہے، ’’بائیڈن اور اُن کے ساتھی مودی سرکار کو اُس وقت سے اچھی طرح جانتے ہیں، جب بارک اوبامہ صدر تھا۔ سیاست اور سفارتکاری میں شامل لوگ بالغ النظر ہوتے ہیں۔ جس طرح بھارت کو امریکا کی ضرورت ہے اسی طرح امریکا کو بھی بھارت کی ضرورت ہے۔‘‘

سفارتکار وشنو پرکاش کہتے ہیں کہ امریکا اور بھارت فطری پارٹنرز ہیں اور بڑھتے ہوئے دوطرفہ تجارتی مفادات اور سیکورٹی تعاون کی وجہ سے دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات ہیں۔ یہ مفادات دونوں ممالک کو مستقبل میں ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر مجبور کریں گے۔

وشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا، ’’آپ صورتحال کو واشنگٹن کے نظریئے سے دیکھیں۔ امریکا کے چین کے ساتھ پرتناو تعلقات ہیں اور امریکا جانتا ہے کہ پاکستان چین کا حامی ہے۔ چین کی جانب سے (دونوں امریکا اور بھارت کو) یکساں خطرہ لاحق ہے۔جاپان اور بھارت کو چھوڑ کو امریکا کے پاس اس خطے میں کوئی اتحادی نہیں ہیں۔ اس لئے دونوں ممالک کے یکساں مفادات ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میرا ماننا ہے کہ امریکا کی نئی حکومت کےلئے بھارت ترجیح ہوگی۔

سفارتکاری میں ذاتی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے

سفارتکار میرا شنکر جو وجئے لکشمن پنڈتا کے بعد امریکا میں بھارت کی دوسری خاتون سفارتکار تھیں، کا جو بائیڈن کے ساتھ اُس وقت تعارف تھا، جب وہ صدر اوبا کے دور میں امریکا کے نائب صدر تھے، ان خدشات کو مسترد کرتی ہیں کہ ڈیموکریٹس کے مودی سرکار کے ساتھ اس وجہ سے دوستانہ تعلقات نہیں ہوں گے کہ مودی سرکار نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی تھیں۔

میرا شنکر نے ای ٹی وی بھارت کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’وہ (جو بائیڈن) ہر بات کو اپنی ذات کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے ہیں، جیسا کہ صدر ٹرمپ کیا کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ کو انتظامیہ چلانا کا ایک اپنا ذاتی طریقہ کار تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ مجھے نہیں لگتا ہے کہ وہ ( جو بایدن ) وزیر اعظم کے تئیں کوئی ذاتی رنجش پال رکھے ہونگے۔ ہم امریکا کے ساتھ ایک ادارتی نظام نہ کہ کوئی ذاتی نظام پر مبنی تعلقات دیکھیں گے۔ وہ (جو بائیڈن) امریکی مفادات کے تناظر میں تعلقات کو دیکھیں گے۔‘‘

دو مختلف نظریوں سے دیکھنے کی ضرورت

وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ہوسٹن ریلی میں مدعو کرنے سے متعلق سوال پر خبردار کرتے ہوئے میرا شنکر نے کہا، ’’میں سمجھتی ہوں کہ بھارت کو دوسرے ممالک کی داخلی سیاست میں الجھنا نہیں چاہیے۔ اس طرح سے ہمارے پاس کئی آپشنز موجود رہتے ہیں اور ہم کسی تنازعے کا موجب بھی نہیں بننا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’جب دونوں پارٹیاں ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن میں اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہیں تو ہمیں بھی ان میں سے کسی واحد پارٹی کی جانب زیادہ جھکاو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘

سرکردہ سفارتکار راجیو بھاٹیہ، جو ممبئی بیسڈ تھنک ٹینک ’گیٹ وے ہاوس‘ کے فیلو بھی ہیں، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کے زیادہ قربت پر ڈیموکریٹس بھی خوش نہیں تھے۔ یہ ایک قابل فہم بات ہے۔ لیکن ماضی تو بہرحال ماضی ہے اور سیاست میں ہر کوئی آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ وزیر اعظم نے فوراً مبارکبادی کا پیغام بھیجا اور مجھے یقین ہے کہ کچھ دنوں میں دونوں لیڈران ایک دوسرے سے بات بھی کریں گے۔‘‘

کرشنانند ترپاٹھی

ای ٹی وی بھارت

تین اعلیٰ بھارتی سفاتکاروں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی شہر ہوسٹن میں منعقدہ جلسے میں مدعو کرنے اور اُن کی دوسرے مرحلے کی انتخابی جیت کے لئے 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود، نئی امریکی سرکار، یعنی ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن کی انتظامیہ، جو اگلے سال وہائٹ ہاوس میں چارج سنبھالے گی، کے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

بھارت میں کلیدی حزبِ اختلاف انڈین نیشنل کانگریس، نے وزیر اعظم مودی کو گزشتہ سال 'ہوڈی مودی' تقریب میں 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کا نعرہ بلند کرنے پر ہدف تنقید بنایا تھا۔

جو بائیڈن کی جیت پر ردعمل

بی جے پی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ دو لیڈروں یعنی وزیر اعظم مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آپسی تعلقات کے نتیجے میں جو بائیڈن کی زیر قیادت انتطامیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات متاثر ہوں گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی واحد عالمی لیڈر نہیں ہیں، جنہیں وہائٹ ہاوس میں آنے والی نئی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کا مسئلہ درپیش ہوگا بلکہ دیگر کئی عالمی لیڈروں جن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، برازیل کے صدر جیئر بولسونارو اور بعض یورپی لیڈروں کو بھی نئی امریکی انتظامیہ کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔

کئی اعلیٰ سفارتکاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین نے ان خدشات کو مسترد کردیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں بھارت امریکا تعلقات متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

بھارتی سفاتکار میرا شنکر، جو امریکی صدر بارک اوبامہ کے دورِ اقتدار میں امریکا میں بھارت کی سفیر رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے، ’’میرے خیال سے امریکا میں دونوں پارٹیوں رہپبلیکن اور ڈیموکریٹس میں اس بات پر اتفاق ہے کہ امریکا کو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہیں، اسلئے امریکی سرکار اس بات سے قطع نظر کہ بھارت میں کس کی حکومت ہے، اس کے ساتھ کام کرے گی۔‘‘

سفارتکار راجیو بھاٹیہ، جو جنوبی افریقہ، میکسکو، میانمار اور کینیا میں بطور بھارتی سفیر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان آپسی تعلقات، امریکی انتطامیہ کے ساتھ بھارت کے رشتے متاثر نہیں کریں گے۔ کیونکہ دونوں ممالک کے مفادات اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ رشتے استوار کرنے پر مجبور کریں گے۔‘‘ بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا وزیر اعظم مودی کےلئے ضروری تھا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کچھ مسائل تھے۔ مودی کی جانب سے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا فائدہ ملا ہے۔ بھارت اور چین کے سرحدی تناو کے دوران امریکا بہت معاون رہا ہے۔

سفارتکار وشنو پرکاش، جو خارجہ امور کے ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ خاص طور سے اس صورتحال میں جب دونوں ممالک کو چین کی جانب سے یکساں جارحیت کا سامنا ہے۔

صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل تھا

سفارتکار میرا شنکر کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنا کافی مشکل تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب جنوری 2016ء میں صدر ٹرمپ نے حکومت سنبھالی تو اُس وقت مودی سرکار کو صدر ٹرمپ کا اعتماد حاصل کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم مودی کو سابق ٓصدر بارک اوبامہ کا قریبی تصور کیا جاتا تھا۔ جنوری 2015ء میں وزیر اعظم مودی کی دعوت پر اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوبامہ نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔

میرا شنکر نے ای ٹی وی بھارت کو مزید کہا، ’’ صدر ٹرمپ کے ابتدائی ایام میں ہمیں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کےلئے وقت حاصل کرنے اور اُن کی دعوت حاصل کرنے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ صدر ٹرمپ سمجھتے تھے کہ وزیر اعظم مودی صدر اوبامہ کے بہت قریبی رہے ہیں۔‘‘

وشنو پرکاش، جو جنوبی کوریا اور کینیڈا میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ بھارتی سفیر مسٹر بائیڈن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں تمام کوششیں کریں گے ، جس طرح سے مودی سرکار نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی تھیں۔ وشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا، ’’سیدھی بات یہ ہے کہ اقتدار میں خواہ کوئی بھی ہو، ہمیں اُس سے نمٹنا ہوگا۔‘‘

ڈیموکریٹس کے ساتھ دشوار گزار تعلقات

وزیر اعظم مودی کی ہوسٹن ریلی ڈیموکریٹس کے ساتھ مودی سرکار کے تعلقات میں تلخی کی واحد وجہ نہیں تھی۔ کئی سینئر دیموکریٹ لیڈران، جن میں نائب صدر کے بطور منتخب ہونے والیں کملا ہیئرس، بھارتی نژاد ڈیموکریٹ کانگریس وومن پرمیلا جئے پال اور کئی دیگر ڈیموکریٹ لیڈران نے انسانی حقوق کے معاملات اور جموں کشمیر میں خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد عائد کی گئیں پابندیوں پر مودی سرکار کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

گزشتہ سال وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے امریکا میں بھارت امریکا منسٹریل میٹنگ میں شرکت کرنے سے ہاوس آف فارن افیئرز کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کرنے سے انکار کیا تھا۔ کیونکہ امریکی انتظامیہ نے اس میٹنگ میں پرائمیلا جئے پال کی شرکت منسوخ کرنا نہیں مانا تھا۔ چینئی میں پیدا ہوئیں پرائمیلا جئے پال پہلی انڈین ایمریکن خاتون ہیں جو ہاوس آف ریپرزنٹیٹوز کے لئے منتخب ہوئی ہیں۔

جئے شنکر کی جانب سے میٹنگ میں شرکت سے انکار کی وجہ پرائمیلا جئے پال تھیں، جس نے امریکی کانگریس میں اُس قرار داد کو پیش کرنے کی حمایت کی تھی، جس میں جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے بعد یہاں پابندیاں ہٹانے کی مانگ کی گئی تھی۔

کملا ہیرس، جو پہلی انڈین امریکن خاتون ہیں، جنہوں نے سنیٹ کی سیٹ جیت لی تھی اور اب وہ امریکا کی نائب صدر منتخب ہوچکی ہیں، کے علاوہ ایک اور ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر الزیبتھ وارن نے میٹنگ، جس میں پائمیلا جئے پال موجود تھیں، میں شرکت نہ کرنے پر جئے شنکر کو ہدف تنقید بنایا۔ تاہم جئے شنکر نے ڈیموکریٹس کی تنقید کے باوجود اپنے فیصلے پر کاربند رہے۔

مشترکہ مفادات دونوں ملکوں کے رشتوں کو استوار کریں گے

اعلیٰ سفارتکاروں ، جن کے ساتھ ای ٹی وی بھارت نے رابطہ کیا کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی وجہ سے نئی امریکی انتظامیہ میں بھارت امریکا تعلقات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔

راجیو بھاٹیہ کا کہنا ہے، ’’بائیڈن اور اُن کے ساتھی مودی سرکار کو اُس وقت سے اچھی طرح جانتے ہیں، جب بارک اوبامہ صدر تھا۔ سیاست اور سفارتکاری میں شامل لوگ بالغ النظر ہوتے ہیں۔ جس طرح بھارت کو امریکا کی ضرورت ہے اسی طرح امریکا کو بھی بھارت کی ضرورت ہے۔‘‘

سفارتکار وشنو پرکاش کہتے ہیں کہ امریکا اور بھارت فطری پارٹنرز ہیں اور بڑھتے ہوئے دوطرفہ تجارتی مفادات اور سیکورٹی تعاون کی وجہ سے دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات ہیں۔ یہ مفادات دونوں ممالک کو مستقبل میں ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر مجبور کریں گے۔

وشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا، ’’آپ صورتحال کو واشنگٹن کے نظریئے سے دیکھیں۔ امریکا کے چین کے ساتھ پرتناو تعلقات ہیں اور امریکا جانتا ہے کہ پاکستان چین کا حامی ہے۔ چین کی جانب سے (دونوں امریکا اور بھارت کو) یکساں خطرہ لاحق ہے۔جاپان اور بھارت کو چھوڑ کو امریکا کے پاس اس خطے میں کوئی اتحادی نہیں ہیں۔ اس لئے دونوں ممالک کے یکساں مفادات ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میرا ماننا ہے کہ امریکا کی نئی حکومت کےلئے بھارت ترجیح ہوگی۔

سفارتکاری میں ذاتی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے

سفارتکار میرا شنکر جو وجئے لکشمن پنڈتا کے بعد امریکا میں بھارت کی دوسری خاتون سفارتکار تھیں، کا جو بائیڈن کے ساتھ اُس وقت تعارف تھا، جب وہ صدر اوبا کے دور میں امریکا کے نائب صدر تھے، ان خدشات کو مسترد کرتی ہیں کہ ڈیموکریٹس کے مودی سرکار کے ساتھ اس وجہ سے دوستانہ تعلقات نہیں ہوں گے کہ مودی سرکار نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی تھیں۔

میرا شنکر نے ای ٹی وی بھارت کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’وہ (جو بائیڈن) ہر بات کو اپنی ذات کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے ہیں، جیسا کہ صدر ٹرمپ کیا کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ کو انتظامیہ چلانا کا ایک اپنا ذاتی طریقہ کار تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ مجھے نہیں لگتا ہے کہ وہ ( جو بایدن ) وزیر اعظم کے تئیں کوئی ذاتی رنجش پال رکھے ہونگے۔ ہم امریکا کے ساتھ ایک ادارتی نظام نہ کہ کوئی ذاتی نظام پر مبنی تعلقات دیکھیں گے۔ وہ (جو بائیڈن) امریکی مفادات کے تناظر میں تعلقات کو دیکھیں گے۔‘‘

دو مختلف نظریوں سے دیکھنے کی ضرورت

وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ہوسٹن ریلی میں مدعو کرنے سے متعلق سوال پر خبردار کرتے ہوئے میرا شنکر نے کہا، ’’میں سمجھتی ہوں کہ بھارت کو دوسرے ممالک کی داخلی سیاست میں الجھنا نہیں چاہیے۔ اس طرح سے ہمارے پاس کئی آپشنز موجود رہتے ہیں اور ہم کسی تنازعے کا موجب بھی نہیں بننا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’جب دونوں پارٹیاں ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن میں اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہیں تو ہمیں بھی ان میں سے کسی واحد پارٹی کی جانب زیادہ جھکاو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘

سرکردہ سفارتکار راجیو بھاٹیہ، جو ممبئی بیسڈ تھنک ٹینک ’گیٹ وے ہاوس‘ کے فیلو بھی ہیں، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کے زیادہ قربت پر ڈیموکریٹس بھی خوش نہیں تھے۔ یہ ایک قابل فہم بات ہے۔ لیکن ماضی تو بہرحال ماضی ہے اور سیاست میں ہر کوئی آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ وزیر اعظم نے فوراً مبارکبادی کا پیغام بھیجا اور مجھے یقین ہے کہ کچھ دنوں میں دونوں لیڈران ایک دوسرے سے بات بھی کریں گے۔‘‘

کرشنانند ترپاٹھی

ای ٹی وی بھارت

Last Updated : Nov 16, 2020, 3:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.