نوجوان، خاتون، بزرگ، بچے سبھی بھوکے پیٹ روٹی خریدنے کے لئے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں بیکری کے باہر کھڑے رہتے ہیں، حالانکہ یہ روٹی مفت میں تقسیم نہیں کی جاتی بلکہ بیکری کو حکومت کے ذریعہ فراہم آٹے کی مقدار میں کمی کرنے کے باعث یہ ہجوم یہاں نظر آ رہا ہے کیونکہ زرا سی تاخیر سے لوگوں کو خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑ سکتا ہے اور اکثر لوگ خالی ہاتھ ہی گھر لوٹ بھی جاتے ہیں اور ایسے میں بھوکے پیٹ سونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوتا ہے۔
بیکری کے مالک ابی السادک کا کہنا ہے کہ آٹے کے لئے بیکریوں کا کوٹہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
ابی السادک کا کہنا ہے کہ ''یہ ریاست کی طرف سے بیکریوں کے کوٹے کو کم کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس سے کچھ بیکریوں میں بحران پیدا ہوگیا ہے اور دیگر عوامل بھی ہیں جنہوں نے اس بحران میں اضافہ کیا ہے، ان میں بجلی کی مسلسل کٹوتی بھی شامل ہے۔''
قطار میں کھڑے عبداللہ بُشرٰی کا کہنا ہے کہ جب ان کی قسمت ٹھیک نہیں ہوتی تب انہیں خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔
بشریٰ کا کہنا ہے کہ ''کبھی کبھی میں قطار میں آدھے گھنٹے اور کبھی 45 منٹ انتظار کرتا ہوں یہاں تک کہ پاؤں پھول جاتے ہیں اور آخر میں وہ کہتے ہیں کہ بجلی ختم ہوگئی ہے یا روٹی نہیں ہے یا روٹی بنانے کے لئے آٹا نہیں ہے، یہ بہت مشکل ہے۔''
سوڈان کی عبوری حکومت گذشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی معاشی بحران کی زد میں۔
کورونا وائرس وبائی مرض کے باعث لاکھوں مزدوروں کے بےروزگار ہونے کے بعد سوڈان میں لوگوں کو مزید تنگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ملک میں لازمی چیزوں کی قلت سے لوگوں میں مایوسی ہے اور لوگوں کو روٹی خریدنے یا پیٹرول - ڈیزل خریدنے کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔
ایک فارم کے مالک یاسر احمد کو اپنا فارم چلانے کے لئے ایندھن کی ضرورت ہے لیکن ایندھن کی قیمت میں اضافے نے ان جیسے کسانوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔
یاسر کا کہنا ہے کہ ''مویشیوں اور فصلوں کو بچانے کے لئے ہم لوگ ایک گیلن گیس 17 ڈالر اور ایک بیرل 125 ڈالر میں خریدتے ہیں، کبھی کبھی یہ قیمت 208 ڈالر بھی ہو جاتی ہے لیکن اس سے ہمارے فائدے میں بہت کمی آجاتی ہے اور اب یہاں کوئی فائدہ نہیں بچا ہے۔''
سوڈان کی دو تہائی آبادی یعنی 40 ملین سے زیادہ افراد غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور حکومت کو 60 ارب ڈالر کا قرض ورثہ میں ملا ہے ایسے میں مہنگائی کی تیز شرح نے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو کمزور کر دیا ہے۔
جمہوریت کے حامی مظاہرین کے ذریعہ خود مختار حکمران عمر البشیر کو ہٹانے کے ایک سال بعد جون میں مغربی اور عرب ممالک نے سوڈان کو 1.8 بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
ورلڈ بینک نے بھی 40 ممالک کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران 400 ملین ڈالر گرانٹ کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ اس امداد سے سوڈان کو مالی بحران سے باہر نکلنے میں کتنی مدد ملے گی کیونکہ تین دہائیوں سے اس ملک پر کئی قسم کی پابندیاں نافذ تھیں۔