افریقی ملک ایتھوپیا میں وفاقی افواج اور علاقائی فورسز کے درمیان جاری جنگ کے دوران ایتھوپیائی شہریوں کو ملک سے باہر پناہ لینی پڑ رہی ہے۔ ملک سے فرار ہونے کا درد یہاں کے شہریوں نے اپنی زبانی بیان کی۔
ایتھوپیا کے ہمیرا نامی قصبے میں رہنے والی تیرہ، جو یہاں ہیئر سیلون چلاتی تھیں، انہوں نے بتایا کہ وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔
تیرہ نے بتایا کہ 'ہمیں جنگ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا کہ یہ کب شروع ہوئی، ہمارے پیسے بینک میں ہیں اور ہم کچھ نہیں لا سکے، یہاں تک کہ ہمارے پاس کپڑے بھی نہیں ہیں۔ ہمدایت جاتے ہوئے ہم نے بچوں اور جوانوں کی بہت سی لاشیں دیکھی ہیں۔ ہمارے بچے بھوکے پیاسے تھے اور جب ہمدایت پہنچے تو ہمیں کھانا نہیں ملا۔ اس کے بعد ہم سوڈان پہنچ گئے'۔
تیرہ اب سوڈان کے ام رکوعبہ کیمپ میں ایک جھونپڑی میں رہ رہی ہیں، جہاں کھانے پینے کی شدید قلت ہے۔ ایک دوسری مہاجر خاتون خدیجہ نے روتے ہوئے کہا کہ ایتھوپیا کے سرکاری حملوں نے بہت سے مکانات کو تباہ کردیا ہے اور بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم ابی احمد نے ہمارے مکانات کو تباہ کردیا اور بہت سارے نوجوان مارے گئے۔ ہمیں امید تھی کہ وہ ہم سب کے رہنما ہوں گے، لیکن یہ کسی انسان یا مسلمان کا عمل نہیں ہے، کیونکہ مسلمان ایسا نہیں کرتے ہیں'۔
ایتھوپیا سے فرار ہونے کے بعد تقریبا 30 ہزار ایتھوپیائی باشندے پڑوسی ملک سوڈان میں پناہ لے چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، جنہوں نے محفوظ مقامات تک پہنچنے کے لئے مشکل علاقوں سے لمبی دوری طے کی تھی۔
یہ لڑائی دو ہفتہ قبل اس وقت شروع ہوئی، جب ایتھوپیا کی وفاقی حکومت نے ملک کے شمالی صوبہ ٹگرے میں علاقائی فورسز کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا، جنہوں نے بغاوت کر دی تھی۔