ETV Bharat / international

سوڈان: 'فوج نے ہمارے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے' - سوڈان میں سیاسی بحران

سوڈان میں دو سال قبل 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک میں فوج اور سویلین قیادت مل کر کام کر رہی تھیں اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سال اقتدار کی منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے گا اور ملک میں مکمل جمہوری نظام قائم کیا جا سکے گا لیکن اس سے قبل ہی فوج نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔

khartoum residents on military coup in sudan
سوڈان: فوج نے ہمارے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے
author img

By

Published : Oct 29, 2021, 8:07 PM IST

سوڈان میں فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتاح البرہان نے 25 اکتوبر کو عبوری سویلین حکومت کو برطرف کرکے اقتدار اپنے کنڑول میں لے لیا تھا۔

جس کے بعد سے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف جمہوریت نوازوں کے مظاہرے جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق فوج اور پولیس کی کارروائی سے اب تک کم از کم سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سوڈان: فوج نے ہمارے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے

مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجیں سڑکوں پر گشت کر رہی ہیں اس کے باوجود جگہ جگہ فوجی بغاوت کی مخالفت میں رہائشیوں نے دارالحکومت خرطوم میں عارضی رکاوٹیں اور ٹائر جلا کر سڑکیں بند کر دیں جس کی وجہ سے مسلسل چوتھے کاروبار اور بینک بند رہے۔

سوڈانی شہری حسین عمر نے کہا کہ سویلین حکومت کیا فراہم کرتی ہے؟ شہریوں کو رہائش، علاج، اسکول، ہسپتال، لیکن کئی ہسپتال بند ہیں اور میرے پاس ایک مریض ہے جسے میں چار دن سے ہسپتال نہیں لے جا سکا اور لوگوں کی جانب سے سڑکوں کو بند کرنا بھی درست نہیں ہے اور انہیں ذرا صبر کرنا چاہیے۔

یہ تختہ پلٹ فوجی اور سویلین رہنماؤں کے درمیان کئی ہفتوں تک بڑھتے ہوئے تنازعہ اور سوڈان میں جمہوریت قائم کرنے کے مطالبے کے دوران ہوا۔ فوجی بغاوت سے نارض لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کے فیصلوں نے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے۔

دوسرے سوڈانی شہری نجم الدین محمد نے کہا کہ جنرل عبدالفتاح برہان کے فیصلوں نے انقلاب کو چرایا اور شہیدوں کا خون چرایا، جن لوگوں کو جنرل کمانڈ میں (3 جون 2019) میں شہید کیا گیا۔ یہ انقلاب کو روکنے کے لیے بشیر حکومت کی وفادار اسلامی جماعت پاپولر کانگریس کی منصوبہ بندی ہے۔"

فوجی بغاوت کے بعد اقوام متحدہ، عالمی برادی، عالمی بینک، امریکا، یوروپی یونین اور افریقی یونین نے سوڈانی فوج کے اقدام کی مذمت کی ہے۔

امریکا نے سوڈان کے لیے اپنے امدادی پروگرام کو منجمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے یہاں تک کہ افریقن یونین نے سوڈان میں سویلین حکومت کی بحالی تک ہر قسم کے رابطے منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

افریقی یونین نے سول حکومت کے خاتمے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوجی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور اقتدار چھوڑ کر جمہوریت بحال کرے اور فیصلوں کا اختیار عوامی نمائندوں کو دیا جائے۔

دراصل سوڈان میں دو سال قبل 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک میں سویلین اور فوجی حکومت مل کر کام کر رہی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سال اقتدار کی منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے اور ملک میں مکمل جمہوری نظام قائم کیا جا سکے گا، لیکن اس سے قبل ہی فوج نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔

سوڈان کے چیف جنرل عبدالفتاح برہان نے کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج کو آگے آنا پڑا اور اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔

سوڈان میں فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتاح البرہان نے 25 اکتوبر کو عبوری سویلین حکومت کو برطرف کرکے اقتدار اپنے کنڑول میں لے لیا تھا۔

جس کے بعد سے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف جمہوریت نوازوں کے مظاہرے جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق فوج اور پولیس کی کارروائی سے اب تک کم از کم سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سوڈان: فوج نے ہمارے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے

مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجیں سڑکوں پر گشت کر رہی ہیں اس کے باوجود جگہ جگہ فوجی بغاوت کی مخالفت میں رہائشیوں نے دارالحکومت خرطوم میں عارضی رکاوٹیں اور ٹائر جلا کر سڑکیں بند کر دیں جس کی وجہ سے مسلسل چوتھے کاروبار اور بینک بند رہے۔

سوڈانی شہری حسین عمر نے کہا کہ سویلین حکومت کیا فراہم کرتی ہے؟ شہریوں کو رہائش، علاج، اسکول، ہسپتال، لیکن کئی ہسپتال بند ہیں اور میرے پاس ایک مریض ہے جسے میں چار دن سے ہسپتال نہیں لے جا سکا اور لوگوں کی جانب سے سڑکوں کو بند کرنا بھی درست نہیں ہے اور انہیں ذرا صبر کرنا چاہیے۔

یہ تختہ پلٹ فوجی اور سویلین رہنماؤں کے درمیان کئی ہفتوں تک بڑھتے ہوئے تنازعہ اور سوڈان میں جمہوریت قائم کرنے کے مطالبے کے دوران ہوا۔ فوجی بغاوت سے نارض لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کے فیصلوں نے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے۔

دوسرے سوڈانی شہری نجم الدین محمد نے کہا کہ جنرل عبدالفتاح برہان کے فیصلوں نے انقلاب کو چرایا اور شہیدوں کا خون چرایا، جن لوگوں کو جنرل کمانڈ میں (3 جون 2019) میں شہید کیا گیا۔ یہ انقلاب کو روکنے کے لیے بشیر حکومت کی وفادار اسلامی جماعت پاپولر کانگریس کی منصوبہ بندی ہے۔"

فوجی بغاوت کے بعد اقوام متحدہ، عالمی برادی، عالمی بینک، امریکا، یوروپی یونین اور افریقی یونین نے سوڈانی فوج کے اقدام کی مذمت کی ہے۔

امریکا نے سوڈان کے لیے اپنے امدادی پروگرام کو منجمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے یہاں تک کہ افریقن یونین نے سوڈان میں سویلین حکومت کی بحالی تک ہر قسم کے رابطے منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

افریقی یونین نے سول حکومت کے خاتمے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوجی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور اقتدار چھوڑ کر جمہوریت بحال کرے اور فیصلوں کا اختیار عوامی نمائندوں کو دیا جائے۔

دراصل سوڈان میں دو سال قبل 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک میں سویلین اور فوجی حکومت مل کر کام کر رہی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سال اقتدار کی منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے اور ملک میں مکمل جمہوری نظام قائم کیا جا سکے گا، لیکن اس سے قبل ہی فوج نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔

سوڈان کے چیف جنرل عبدالفتاح برہان نے کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج کو آگے آنا پڑا اور اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.