شمالی افریقی ملک سوڈان کی جنوبی دارفور علاقے میں حریف قبائلی گروہوں کے مابین ہونے والی تشدد میں 47 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ گذشتہ روز تشدد میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مقامی رہنما محمد صالح نے آج خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ 'ریزیگاٹ قبیلے اور فلاٹا قبیلے کے درمیان تشدد بند ہوگئیں ہیں اور اب تک ہم 47 ہلاکتوں کی گنتی کر چکے ہیں'۔
صالح، نسلی طور پر غیر عرب فلاٹا لوگوں سے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تشدد میں متعدد مکانات جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔
تشدد کے یہ واقعات ایسے وقت پیش آئے ہیں جب چند ہفتے قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس خطے سے یو این افریقی یونین مشترکہ قیام امن مشن کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
13 برس کے بعد قیام امن مشن کی واپس ہو رہی ہے اور مقامی لوگوں نے اس پر احتجاج بھی کیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بین الاقوامی سیکیورٹی فورسز کی غیر موجودگی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں تعلیمی سرگرمیاں بحال
حکومتی عہدیداروں نے سنیچر کے روز علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ تمام بازاروں کو بند کرا دیا تھا اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی تھی۔
تشدد کے حالیہ واقعات نے تصادم سے دوچار دارفور خطے میں استحکام پیدا کرنے کی عبوری حکومت کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
خیال رہے کہ دارفور میں سنہ 2003 میں بڑے پیمانے پر نسلی تصادم کے واقعات پیش آئے تھے۔ جس کے نتیجے میں تقریباً تین لاکھ افراد ہلاک اور 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔ حالانکہ اس کے بعد سے کشیدگی میں کمی آئی ہے تاہم تشدد کے اکا دکا واقعات اب بھی ہوتے رہتے ہیں۔
خطے میں تشدد کا ایک بنیادی سبب زمین اور آبی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی ہے۔
علاقے میں امن اور استحکام پیدا کرنے کی امید میں اقتدار میں شرکت کے ایک معاہدے کے تحت عبوری حکومت قائم کی گئی ہے جس میں مقامی باغی گروپوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم سب سے مقبول سوڈان لبریشن موومنٹ سمیت دو بڑے گروپوں نے اس عبوری حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔