افریقی ملک سوڈان کے اقتدار پر جنرل عبد الفتاح برہان کے قبضہ کے بعد ملک میں احتجاج و مظاہرہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب دارالحکومت خرطوم میں فوجی بغاوت کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاج کیا جس کے دوران سیکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ سے 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق سوڈان میں فوجی بغاوت کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے لگارہے ہیں۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جس میں جمہوری حکومت کی بحالی کے مطالبات تحریر تھے۔
سیکیورٹی فورسز نے امن عامہ کے نام پر مظاہرین کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور آنسو گیس کی شیلنگ کی تاہم مظاہرین کے منتشر نہ ہونے پر براہ راست فائرنگ کردی۔
مظاہرین پر پولیس کی براہ راست فائرنگ میں 5 افراد ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے جن میں سے 4 کی حالت نازک ہونے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔
خیال رہے کہ سیاسی بحران کے شکار ملک سوڈان میں گزشتہ ماہ فوجی جنرل نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور وزیر اعظم سمیت متعدد وزرا کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
- سوڈان میں احتجاج، جمہوری حکومت کا مطالبہ
- سوڈان: 'فوج نے ہمارے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے'
- سوڈان میں فوجی بغاوت کے خلاف سویلین کے مظاہرے جاری، سات افراد ہلاک
- اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے سوڈان میں فوجی بغاوت پر تشویش کا اظہار کیا
فوجی بغاوت کے بعد سوڈان کے وزيراعظم عبداللہ حمدوک اہلیہ سمیت کئی رہنما لاپتہ تھے تاہم عالمی دباؤ کے نتیجے میں 48 گھنٹے بعد اہلیہ سمیت وزیر اعظم گھر پہنچ گئے تھے۔
وہیں، سوڈان میں سیکورٹی فورسز نے الجزیرہ کے سوڈانی بیورو چیف المسلمی القباشی کو حراست میں لے لیا۔ قطر کے نشریاتی ادارے نے یہ اطلاع دی۔
سوڈانی فوج نے 25 اکتوبر کو وزیر اعظم عبداللہ حمدوک اور کئی دیگر کابینہ کے وزراء کو حراست میں لینے کے بعد ریاست میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ سوڈانی مسلح افواج کے کمانڈر عبدالفتاح البرہان کے ذریعہ حکومت کو برخاست کرنے کے واقعات میں سینکڑوں افراد نے سڑکوں پر احتجاج و مظاہرہ کیا۔
عبدالفتاح نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ حکومت کو سوڈان میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ڈھل جانا چاہئے کیونکہ اختلاف رائے اور تشدد اپنے عروج پر تھا۔ حمدوک کو بھی حملے کی دھمکی ملنے کے بعد اپنی رہائش گاہ سے چلے جانا چاہیے تھا لیکن وہ اپنے گھر واپس آ گئے۔
واضح رہے کہ سوڈان میں سب سے طویل عرصے تک صدر رہنے والے عمر البشیر 2019 کو عوامی مظاہروں کے بعد مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد سے اب تک سیاسی بحران ختم نہیں ہوسکا ہے اور کوئی بھی حکومت چند ماہ بھی قائم نہیں رہ سکی۔
(یو این آئی)