سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فوج مخالف مظاہرے کے دوران ہلاک 27 سالہ ابو بکر صلاح کے خاندان والوں نے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے عہد کیا کہ اس کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔ ابو بکر صلاح کو مظاہرے کے دوران فوج نے سینے پر گولی مار دی تھی، جس سے اس کی موت ہو گئی۔
احتجاج سے متعلق اموات پر نظر رکھنے والی سوڈان ڈاکرز کمیٹی نے کہا کہ سوڈان میں عبوری حکومت کے خاتمے کے بعد سے اتوار کے روز تک فوجی بغاوت مخالف مظارہروں میں کم از کم 41 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔
ملک میں اقتدار کی منتقلی کو متاثر کرنے والے فوجی قبضے کے بعد سے سوڈانی عوام سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ بغاوت مخالف مظاہروں کے دوران لائیو فائر سے کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے۔
سوگوار کنبے ان لوگوں سے مل رہے ہیں، جو ان کے گھر تعزیت کے لیے پہنچے ہیں۔
ابو بکر صلاح کی والدہ اقبال عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ "خدا اس سے بدلہ لے جس نے اسے مارا، ہم صرف خدا کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، ہم مخصوص لوگوں پر الزام نہیں لگا سکتے، لیکن یقیناً جس ہاتھ نے یہ کیا وہ غدار اور گناہ گار ہاتھ ہیں، جو ہتھیار لے کر نہتھوں کو مارتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے، اگر میں بھوکا ہوں اور مجھے کام نہیں مل سکتا، اور میں ایک بے روزگار گریجویٹ ہوں جو خوشگوار زندگی کا خواب دیکھتا ہے، شادی کرنے اور گھر بنانے کا خواب دیکھتا ہے، تو یہ مشکل ہے کہ ایک نوجوان جس کی عمر تقریباً 27 سال ہے، وہ اس صورتحال کے خلاف احتجاج نہ کرے۔
مہلوک ابو بکر صلاح کی بہن نے کہا کہ "خدا ان سے بدلہ لے، ہم کچھ نہیں کر سکتے"۔ اس کے بعد وہ اپنے آنسو کو نہیں روک سکی۔
ابوبکر صلاح کی بہن فاطمہ صلاح نے کہا کہ "خدا ان سے بدلہ لے، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور اگر وہ سب مارے جاتے ہیں تو بھی بکر کے خون کے برابر کچھ نہیں ہوگا۔''
سوڈانی ڈاکٹرز کے مرکزی دفتر کی ایک رپورٹ کے مطابق 25 اکتوبر کی بغاوت کے بعد سے فوج نے زخمی مظاہرین کو لے جانے والی ایمبولینسوں کو اسپتالوں تک پہنچنے سے روک دیا ہے، پولیس ایمرجنسی رومز میں داخل ہوئی، مریضوں کو گرفتار کر لیا اور ملک کے دارالحکومت میں کم از کم دو اسپتالوں کے اندر آنسو گیس فائر کئے۔
اتوار کے روز سوڈان کے معزول وزیر اعظم عبداللہ حمدوک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت فوجی بغاوت کے تقریباً ایک ماہ بعد انہیں دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کیا جائے گا، گزشتہ ایک ماہ سے انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سوڈان: 'فوج نے ہمارے انقلاب اور شہیدوں کا خون چرایا ہے'
اس معاہدے میں ایک آزاد ٹیکنو کریٹک کابینہ کا تصور کیا گیا ہے جس کی قیادت ہمدوک کریں گے جب تک کہ انتخابات نہیں کرائے جا سکتے ہوں۔ اس دوران ملک فوجی نگرانی میں رہے گا۔
اس کے جواب میں ہزاروں سوڈانی اس کی مذمت کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، جسے بہت سے لوگوں نے اپنے سابق وزیر اعظم کی طرف سے جمہوری مقصد کے ساتھ غداری قرار دیا۔ عبداللہ حمدوک لمبے وقفے تک حکومت کرنے والے ڈکٹیٹر عمر البشیر کے خلاف 2019 کی عوامی بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عبوری حکومت کا سویلین چہرہ رہے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے بغاوت کرنے والے رہنماؤں سے بارہا مطالبہ کیا گیا ہے کہ عام شہریوں کو پرامن احتجاج کرنے کی اجازت دی جائے۔