ETV Bharat / international

ایتھوپیائی فوج پر ٹگرے باشندوں کی نسل کشی اور عصمت دری کا الزام

author img

By

Published : Apr 8, 2021, 1:11 PM IST

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ٹگرے ​​میں 500 سے زیادہ عصمت دری کی اطلاع صحت کارکنان کو دی گئی ہے لیکن صحت کارکنان کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بات نہیں کرتی ہیں اور اس وجہ سے یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

murder
murder

ایتھوپیا کے پناہ گزینوں نے اپنے ملک کے ٹگرے ​​خطے میں حالیہ تنازع کے دوران حکومت پر نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری کا الزام لگایا ہے۔ ٹگرے سے نقل مکانی کے بعد ان لوگوں نے سوڈان کے سرحدی علاقے میں پناہ لے رکھی ہے۔

ایتھوپیا: فوج نے ہزاروں ٹگرے باشندوں کی نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری کی

ایسوسی ایٹ پریس کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک مہاجر خاتون نے کہا کہ مسلح فوجی خواتین کے ساتھ زیادتی کر رہے تھے۔ دریا کے کنارے درجنوں لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہاں سے نکلنے کے دوران ایک بچی پیچھے رہ گئی۔

ان مہاجرین کے جسموں پر اب بھی تشدد کے نشانات موجود ہیں۔

ایتھوپیا کی مرکزی حکومت اور ٹگرے ​​کی علاقائی انتظامیہ کے مابین سیاسی تنازع کے طور پر اس محاذ آرائی کی شروعات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ٹگرے علاقے سے لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکہ نے اسے ٹگرے اقلیت کے خلاف نسل کشی قرار دیا ہے۔

نوبل امن انعام یافتہ ابی احمد کی سربراہی میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایتھوپیا کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنے نسلی گروپ، امہارا اور پڑوسی ملک اریٹیریا کے فوجیوں کے ساتھ مل کر ٹیم بنائی ہے، جو ٹگرے کے فرار رہنماؤں کے طویل عرصے سے دشمن ہیں۔

ٹگریائی مہاجرین کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں، یہاں تک کہ دسیوں ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ہوئی ہے۔

مہاجرین نے بتایا کہ امہارا حکام اور اس سے منسلک افواج نے پوری برادری کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ انہوں نے ٹگریائیوں کو باہر نکالنے کا حکم دیا ہے۔

ایتھوپیا کے مہاجرین کے لئے کیمپ
ایتھوپیا کے مہاجرین کے لئے کیمپ

ایتھوپیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ "نسل کشی کے تمام تصورات اور طرز عمل کو مسترد کرتی ہے اور وہ اس کو کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی اور نہ ہی اس طرح کے جرائم پر آنکھیں بند کرے گی۔"

سوڈان کے سرحدی علاقے پر پناہ لینے والے مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹگرائیوں کو ہلاک ہوتے دیکھا ہے یا ان کی لاشوں کو زمیں پر پڑے ہوئے دیکھا ہے۔

ایک خاتون نے اس منہوس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح فوجیوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔

ایک اور خاتون نے بتایا کہ کس طرح ایریٹرین فوجیوں نے اس کے والد کو اس کے ساتھ زیادتی کا حکم دیا، پھر انکار کرنے پر اس کے والد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور پھر فوجیوں نے اس خاتون کی عصمت دری کی۔

صحت کارکن ایسلا تیسفا بیہی نے کہا کہ "انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بجائے مرنا بہتر سمجھیں گے۔ ان لوگوں نے انہیں مار ڈالا اور آخر میں اس کے ساتھ عصمت دری کی۔ اس سے زیادہ خوفناک کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی ہے۔"

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ٹگرے ​​میں 500 سے زیادہ عصمت دری کی اطلاع صحت کارکنان کو دی گئی ہے لیکن صحت کارکنان کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بات نہیں کرتی ہیں اور اس وجہ سے یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

ایتھوپیا کے پناہ گزینوں نے اپنے ملک کے ٹگرے ​​خطے میں حالیہ تنازع کے دوران حکومت پر نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری کا الزام لگایا ہے۔ ٹگرے سے نقل مکانی کے بعد ان لوگوں نے سوڈان کے سرحدی علاقے میں پناہ لے رکھی ہے۔

ایتھوپیا: فوج نے ہزاروں ٹگرے باشندوں کی نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری کی

ایسوسی ایٹ پریس کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک مہاجر خاتون نے کہا کہ مسلح فوجی خواتین کے ساتھ زیادتی کر رہے تھے۔ دریا کے کنارے درجنوں لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہاں سے نکلنے کے دوران ایک بچی پیچھے رہ گئی۔

ان مہاجرین کے جسموں پر اب بھی تشدد کے نشانات موجود ہیں۔

ایتھوپیا کی مرکزی حکومت اور ٹگرے ​​کی علاقائی انتظامیہ کے مابین سیاسی تنازع کے طور پر اس محاذ آرائی کی شروعات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ٹگرے علاقے سے لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکہ نے اسے ٹگرے اقلیت کے خلاف نسل کشی قرار دیا ہے۔

نوبل امن انعام یافتہ ابی احمد کی سربراہی میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایتھوپیا کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنے نسلی گروپ، امہارا اور پڑوسی ملک اریٹیریا کے فوجیوں کے ساتھ مل کر ٹیم بنائی ہے، جو ٹگرے کے فرار رہنماؤں کے طویل عرصے سے دشمن ہیں۔

ٹگریائی مہاجرین کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں، یہاں تک کہ دسیوں ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ہوئی ہے۔

مہاجرین نے بتایا کہ امہارا حکام اور اس سے منسلک افواج نے پوری برادری کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ انہوں نے ٹگریائیوں کو باہر نکالنے کا حکم دیا ہے۔

ایتھوپیا کے مہاجرین کے لئے کیمپ
ایتھوپیا کے مہاجرین کے لئے کیمپ

ایتھوپیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ "نسل کشی کے تمام تصورات اور طرز عمل کو مسترد کرتی ہے اور وہ اس کو کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی اور نہ ہی اس طرح کے جرائم پر آنکھیں بند کرے گی۔"

سوڈان کے سرحدی علاقے پر پناہ لینے والے مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹگرائیوں کو ہلاک ہوتے دیکھا ہے یا ان کی لاشوں کو زمیں پر پڑے ہوئے دیکھا ہے۔

ایک خاتون نے اس منہوس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح فوجیوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔

ایک اور خاتون نے بتایا کہ کس طرح ایریٹرین فوجیوں نے اس کے والد کو اس کے ساتھ زیادتی کا حکم دیا، پھر انکار کرنے پر اس کے والد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور پھر فوجیوں نے اس خاتون کی عصمت دری کی۔

صحت کارکن ایسلا تیسفا بیہی نے کہا کہ "انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بجائے مرنا بہتر سمجھیں گے۔ ان لوگوں نے انہیں مار ڈالا اور آخر میں اس کے ساتھ عصمت دری کی۔ اس سے زیادہ خوفناک کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی ہے۔"

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ٹگرے ​​میں 500 سے زیادہ عصمت دری کی اطلاع صحت کارکنان کو دی گئی ہے لیکن صحت کارکنان کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بات نہیں کرتی ہیں اور اس وجہ سے یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.