مصری صدر عبد الفتاح السیسی کی جانب سے لیبیا میں ترک حمایت یافتہ افواج کے خلاف کارروائی کی دھمکی کے بعد پیر کو مصر کی پارلیمنٹ نے ملک سے باہر فوج کی تعیناتی کو منظوری دے دی ہے۔
اس اقدام سے ترکی اور مصر جو اس سے پہلے پراکسی جنگ کا حصہ تھے، اب براہ راست ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔
السیسی لیبیا کے شہر سرت کو 'ریڈ لائن' سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے آگاہ کیا ہے کہ اس پر ہونے والے کسی بھی حملے کے خلاف مصر جوابی کارروائی کرے گا۔
خیال رہے کہ سنہ 2011 میں لیبیا میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور اس دوران تقریبا 42 برسوں تک لیبیا کے حکمراں رہے معمر القذافی کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک لیبیا میں افرا تفری کا ماحول ہے۔
سنہ 2015 میں لیبیا پر حکومت کے دو دعویدار اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان میں ایک خلیفہ حفتر، جو لیبیا کے فوجی جنرل تھے اس کے علاوہ دوسری طرف طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت، جس کے موجودہ وزیر اعظم فیاض السراج ہیں۔
ترکی فیاض السراج کی حمایت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خلیفہ حفتر کے حامی، جن میں مصر بھی شامل ہے وہ ترکی کی مخالفت کرتا ہے۔
خلیفہ حفتر کو متحدہ عرب امارات، مصر اور روس کی حمایت حاصل ہے، جبکہ فیاض السراج کو اقوام متحدہ، قطر، اٹلی اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ لیبیا میں دونوں فریق کے حامی ملک کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ لیبیا میں تیل کا بڑے پیمانے پر خزانہ موجود ہے۔