ETV Bharat / international

سوڈان کے معزول وزیراعظم گھر واپس آگئے

سوڈانی وزیر اعظم عبداللہ حمدوک اور ان کی اہلیہ خرطوم میں اپنے گھر واپس آگئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے عبداللہ حمدوک اور دیگر حراست میں لیے گئے رہنما کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا، سوڈانی جنرل کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج کو آگے آنا پڑا۔

Deposed sudanese pm Abdalla Hamdok
سوڈانی وزیر اعظم عبداللہ حمدوک
author img

By

Published : Oct 27, 2021, 4:42 PM IST

سوڈان کے معزول وزیراعظم عبداللہ حمدوک ان کے دفتر کے مطابق حراست میں لینے کے ایک دن بعد خرطوم میں واقع اپنے گھر واپس آگئے ہیں لیکن رہائش گاہ پر فوج کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔

Pro-democracy protesters burn tires in the streets
جمہوریت کے حامی مظاہرین سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کرتے ہوئے

اہلکار نے بتایا کہ حمدوک کے گھر پر بھاری سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے تاہم اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ آیا حمدوک فون کال کرنے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے آزاد ہیں یا نہیں۔

اس سے پہلے سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد انہیں متعدد وزرا کے ساتھ حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

Pro-democracy protests in Sudan after a military coup
سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد جمہوریت پسند عوام کا احتجاج

جس کے بعد بين الاقوامی برادری نے تمام سرکاری ملازمين کی فوری رہائی کا مطالبہ کيا تھا۔

منگل کو حمدوک اور ان کی اہلیہ کی رہائی جنرل عبدالفتاح البرہان کے اقتدار پر قبضے کی بین الاقوامی مذمت کے بعد ہوئی تھی۔

ذرائع کے مطابق معزول سویلین رہنما سخت سیکورٹی میں ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ سوڈان میں بغاوت کی وبا پر کارروائی کرے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی حمدوک کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں جسے انہوں نے بغاوت کی وبا قرار دیا۔

سوڈان میں فوجی بغاوت کی وجہ سے امریکہ نے کہا تھا کہ وہ امداد معطل کر دے گا جبکہ یورپی یونین نے بھی ایسا ہی کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ شمالی افریقی ملک سوڈان کے چیف جنرل نے پیر کو ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ چند گھنٹے قبل، فوج نے نگراں وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بغاوت کے دوران گرفتار کر لیا تھا اور ملک میں انٹرنیٹ خدمات بھی بند کر دیں گئی۔

تاہم، منگل کو بغاوت کے ایک دن بعد سوڈانی جنرل نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم کی سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے حراست میں لیا گیا ہے۔

جنرل عبدالفتاح برہان نے کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج کو آگے آنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔

حمدوک کے دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق معزول وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں اپنے گھر پر سخت حفاظت میں تھے اور بغاوت کے دن ان کو گرفتار کیا گیا اور دیگر سویلین اہلکار بھی نظر بند ہیں جن کے مقامات کا کوئی علم نہیں ہے۔

وزارتِ اطلاعات کے فیس بک صفحے پر ایک پیغام میں ملک کے وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے بھی عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ پرامن مظاہرے کریں اور ’انقلاب کا تحفظ‘ کریں۔

منگل کو جمہوریت کے حامی مظاہرین سڑکوں پر واپس آئے، دارالحکومت میں عارضی رکاوٹوں اور ٹائر جلاکر سڑکیں بلاک کردیں۔ ذرائع کے مطابق فوجیوں نے ہجوم پر فائرنگ کی تھی جس میں چار مظاہرین مارے گئے تھے۔

سوڈان کے معزول وزیراعظم عبداللہ حمدوک ان کے دفتر کے مطابق حراست میں لینے کے ایک دن بعد خرطوم میں واقع اپنے گھر واپس آگئے ہیں لیکن رہائش گاہ پر فوج کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔

Pro-democracy protesters burn tires in the streets
جمہوریت کے حامی مظاہرین سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کرتے ہوئے

اہلکار نے بتایا کہ حمدوک کے گھر پر بھاری سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے تاہم اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ آیا حمدوک فون کال کرنے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے آزاد ہیں یا نہیں۔

اس سے پہلے سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد انہیں متعدد وزرا کے ساتھ حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

Pro-democracy protests in Sudan after a military coup
سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد جمہوریت پسند عوام کا احتجاج

جس کے بعد بين الاقوامی برادری نے تمام سرکاری ملازمين کی فوری رہائی کا مطالبہ کيا تھا۔

منگل کو حمدوک اور ان کی اہلیہ کی رہائی جنرل عبدالفتاح البرہان کے اقتدار پر قبضے کی بین الاقوامی مذمت کے بعد ہوئی تھی۔

ذرائع کے مطابق معزول سویلین رہنما سخت سیکورٹی میں ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ سوڈان میں بغاوت کی وبا پر کارروائی کرے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی حمدوک کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں جسے انہوں نے بغاوت کی وبا قرار دیا۔

سوڈان میں فوجی بغاوت کی وجہ سے امریکہ نے کہا تھا کہ وہ امداد معطل کر دے گا جبکہ یورپی یونین نے بھی ایسا ہی کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ شمالی افریقی ملک سوڈان کے چیف جنرل نے پیر کو ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ چند گھنٹے قبل، فوج نے نگراں وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بغاوت کے دوران گرفتار کر لیا تھا اور ملک میں انٹرنیٹ خدمات بھی بند کر دیں گئی۔

تاہم، منگل کو بغاوت کے ایک دن بعد سوڈانی جنرل نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم کی سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے حراست میں لیا گیا ہے۔

جنرل عبدالفتاح برہان نے کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج کو آگے آنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔

حمدوک کے دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق معزول وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں اپنے گھر پر سخت حفاظت میں تھے اور بغاوت کے دن ان کو گرفتار کیا گیا اور دیگر سویلین اہلکار بھی نظر بند ہیں جن کے مقامات کا کوئی علم نہیں ہے۔

وزارتِ اطلاعات کے فیس بک صفحے پر ایک پیغام میں ملک کے وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے بھی عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ پرامن مظاہرے کریں اور ’انقلاب کا تحفظ‘ کریں۔

منگل کو جمہوریت کے حامی مظاہرین سڑکوں پر واپس آئے، دارالحکومت میں عارضی رکاوٹوں اور ٹائر جلاکر سڑکیں بلاک کردیں۔ ذرائع کے مطابق فوجیوں نے ہجوم پر فائرنگ کی تھی جس میں چار مظاہرین مارے گئے تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.