ETV Bharat / entertainment

Singer Naushad Birth Anniversary سروں کے جادوگر موسیقار نوشاد کی سالگرہ - موسیقار نوشاد کا یوم پیدائش

موسیقار نوشاد کا آج یوم پیدائش ہے۔ نوشاد کی پیدائش لکھنؤ کے ایک متوسط مسلم خاندان میں 25 دسمبر 1919 کو ہوئی۔ نوشاد نے چھ دہائی کے اپنے فلمی کیریئر میں تقریباً 70 فلموں میں موسیقی دی ہے۔ Singer Naushad Birthplace

سروں کے جادوگر موسیقار نوشاد کی سالگرہ
سروں کے جادوگر موسیقار نوشاد کی سالگرہ
author img

By

Published : Dec 25, 2022, 9:20 AM IST

ممبئی: سنہ 1960 میں ریلیز ہوئی شاہکار فلم مغل اعظم کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جیسی اس وقت تھی جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی اور آج کی نسل بھی اس کے نغمے سنتی اور گنگناتی ہے لیکن اس فلم کے موسیقار نوشاد نے پہلے اس میں موسیقی دینے سے انکار کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف جب نوشاد کے گھر ان سے ملنے کے لیے گئے۔ وہ اس وقت ہارمونیم پر کوئی دھن تیار کررہے تھے اسی وقت کے آصف نے 50 ہزار روپے کے نوٹوں کا بنڈل ہارمونیم پر پھینکا، نوشاد کو اس بات پر بے حد غصہ آیا اور نوٹوں کا بنڈل واپس کرتے ہوئے کہا ’’ایسا ان لوگوں کے لیے کرنا جو بغیر ایڈوانس فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔ میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا۔‘‘ بعد میں کے آصف کی منت سماجت پر نوشاد نہ صرف فلم میں موسیقی دینے کے لیے تیار ہوئے بلکہ اس کے لیے ایک پیسہ تک نہیں لیا۔ Birthday of Music magician Naushad

لکھنؤ کے ایک متوسط مسلم خاندان میں 25 دسمبر 1919 کو نوشاد کی پیدائش ہوئی۔ وہ بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھے اور انہیں اپنے اس شوق کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرنی پڑتی تھی۔ ان کے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم گھر یا موسیقی میں سے ایک کو منتخب کرلو۔ اسی دوران لکھنؤ میں ایک ڈرامہ کمپنی آئی اور نوشاد نے آخر کار ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘ اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر اس ڈرامہ کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جے پور، جودھپور، بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔

نوشاد کے بچپن کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ لکھنؤ میں بھوندومل اینڈ سنس کی موسیقی کے آلات کی ایک دکان تھی جسے موسیقی کے دیوانے نوشاد حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار دکان کے مالک نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ وہ یہاں کیوں کھڑے رہتے ہیں۔ نوشاد نے کہا کہ وہ ان کی دکان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ نوشاد کا ارادہ تھا کہ وہ اسی بہانے موسیقی کے آلات پر ریاض کر سکیں گے۔ ایک دن دکان کے مالک نے انہیں ریاض کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انہیں ڈانٹ لگائی کہ انہوں نے آلات گندے کردیے لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ نوشاد بہت خوبصورت دھن بجا رہے تھے جس کے بعد اس نے نہ صرف انہیں موسیقی کے آلات تحفہ میں دیے بلکہ ان کے لیے موسیقی سیکھنے کا انتظام بھی کردیا۔

1937 میں نوشاد اپنے ایک دوست سے 25 روپے بطور قرض لے کر موسیقار بننے کا خواب آنکھوں میں لیے ممبئی آگئے لیکن یہاں آکر انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ عالم یہ تھا کہ کئی راتیں انہیں فٹ پاتھ پر گزارنی پڑیں۔ اس دوران ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایت کار اے آر کاردار سے ہوئی، انہی کی سفارش پر نوشاد کو موسیقار حسین خان کے یہاں 40 روپے فی ماہوار پر پیانو بجانے کا کام ملا۔ اس کے بعد انہوں نے موسیقار کھیم چندر پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ بطور موسیقار نوشاد کو 1940 میں فلم پریم نگر میں پہلی بار 100 روپے ماہوار پر کام کرنے کا موقع ملا۔1944 میں ریلیز ہوئی فلم رتن میں ان کی موسیقی سے آراستہ نغمہ ’انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘ کی کامیابی کے بعد نوشاد 25 ہزار روپے محنتانے کے طورپر لینے لگے اور اس کے بعدانہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔اس کے بعد وہ فلموں میں بہترین موسیقی دیتے رہے اور ان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔

نوشاد نے چھ دہائی کے اپنے فلمی کیریئر میں تقریباً 70 فلموں میں موسیقی دی ہے۔ اس طویل سفر میں انہوں نے سب سے زیادہ فلمیں نغمہ نگار شکیل بدایونی کے ساتھ کی ہیں اور ان دونوں کی جگل بندی ہمیشہ سپر ہٹ ہوئی۔ نوشاد کے پسندیدہ گلوکار کے طورپر محمد رفیع کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔ انہوں نے شکیل بدایونی اور محمد رفیع کے علاوہ لتا منگیشکر ،ثریا، اوما دیوی اور نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کو بھی فلم انڈسٹری میں ممتاز مقام دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ نوشاد کی موسیقی سے آراستہ مشہور فلموں میں پریم نگر، بیجو باورا، آن، بابل، رتن، شاہ جہاں، دلاری، دیدار، درد، انداز، امر، مدر انڈیا، اڑن کھٹولا، کوہ نور ، مغل اعظم ، پالکی اور میرے محبوب قابل ذکر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوشاد موسیقی کی دنیا کا بےتاج بادشاہ

نوشاد ایسے پہلے موسیقار تھے جنہوں نے پلے بیک سنگنگ کے میدان میں ساؤنڈ مکسنگ اور گانے کی ریکارڈنگ کو الگ رکھا۔ فلم موسیقی میں ایکورڈین کا سب سے پہلے استعمال بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔ ہندی فلم انڈسٹری کے وہ پہلے موسیقار تھے جنہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈ انہیں 1953 میں ریلیز ہوئی فلم بیجو باورا میں بہترین موسیقی کے لیے دیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہیں ا س کے بعد کوئی فلم فیئر ایوارڈ نہیں ملا۔ ہندوستانی سنیما میں ان کی قابل ذکر خدمات کے لیے 1982 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور 1992 میں بدم بھوشن سے نوازا گیا۔ تقریباً چھ دہائی کے طویل سفر میں اپنی موسیقی سے شائقین کا دل جیتنے والے موسیقار نوشاد پانچ مئی 2006 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

یو این آئی

ممبئی: سنہ 1960 میں ریلیز ہوئی شاہکار فلم مغل اعظم کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جیسی اس وقت تھی جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی اور آج کی نسل بھی اس کے نغمے سنتی اور گنگناتی ہے لیکن اس فلم کے موسیقار نوشاد نے پہلے اس میں موسیقی دینے سے انکار کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف جب نوشاد کے گھر ان سے ملنے کے لیے گئے۔ وہ اس وقت ہارمونیم پر کوئی دھن تیار کررہے تھے اسی وقت کے آصف نے 50 ہزار روپے کے نوٹوں کا بنڈل ہارمونیم پر پھینکا، نوشاد کو اس بات پر بے حد غصہ آیا اور نوٹوں کا بنڈل واپس کرتے ہوئے کہا ’’ایسا ان لوگوں کے لیے کرنا جو بغیر ایڈوانس فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔ میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا۔‘‘ بعد میں کے آصف کی منت سماجت پر نوشاد نہ صرف فلم میں موسیقی دینے کے لیے تیار ہوئے بلکہ اس کے لیے ایک پیسہ تک نہیں لیا۔ Birthday of Music magician Naushad

لکھنؤ کے ایک متوسط مسلم خاندان میں 25 دسمبر 1919 کو نوشاد کی پیدائش ہوئی۔ وہ بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھے اور انہیں اپنے اس شوق کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرنی پڑتی تھی۔ ان کے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم گھر یا موسیقی میں سے ایک کو منتخب کرلو۔ اسی دوران لکھنؤ میں ایک ڈرامہ کمپنی آئی اور نوشاد نے آخر کار ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘ اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر اس ڈرامہ کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جے پور، جودھپور، بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔

نوشاد کے بچپن کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ لکھنؤ میں بھوندومل اینڈ سنس کی موسیقی کے آلات کی ایک دکان تھی جسے موسیقی کے دیوانے نوشاد حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار دکان کے مالک نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ وہ یہاں کیوں کھڑے رہتے ہیں۔ نوشاد نے کہا کہ وہ ان کی دکان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ نوشاد کا ارادہ تھا کہ وہ اسی بہانے موسیقی کے آلات پر ریاض کر سکیں گے۔ ایک دن دکان کے مالک نے انہیں ریاض کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انہیں ڈانٹ لگائی کہ انہوں نے آلات گندے کردیے لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ نوشاد بہت خوبصورت دھن بجا رہے تھے جس کے بعد اس نے نہ صرف انہیں موسیقی کے آلات تحفہ میں دیے بلکہ ان کے لیے موسیقی سیکھنے کا انتظام بھی کردیا۔

1937 میں نوشاد اپنے ایک دوست سے 25 روپے بطور قرض لے کر موسیقار بننے کا خواب آنکھوں میں لیے ممبئی آگئے لیکن یہاں آکر انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ عالم یہ تھا کہ کئی راتیں انہیں فٹ پاتھ پر گزارنی پڑیں۔ اس دوران ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایت کار اے آر کاردار سے ہوئی، انہی کی سفارش پر نوشاد کو موسیقار حسین خان کے یہاں 40 روپے فی ماہوار پر پیانو بجانے کا کام ملا۔ اس کے بعد انہوں نے موسیقار کھیم چندر پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ بطور موسیقار نوشاد کو 1940 میں فلم پریم نگر میں پہلی بار 100 روپے ماہوار پر کام کرنے کا موقع ملا۔1944 میں ریلیز ہوئی فلم رتن میں ان کی موسیقی سے آراستہ نغمہ ’انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘ کی کامیابی کے بعد نوشاد 25 ہزار روپے محنتانے کے طورپر لینے لگے اور اس کے بعدانہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔اس کے بعد وہ فلموں میں بہترین موسیقی دیتے رہے اور ان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔

نوشاد نے چھ دہائی کے اپنے فلمی کیریئر میں تقریباً 70 فلموں میں موسیقی دی ہے۔ اس طویل سفر میں انہوں نے سب سے زیادہ فلمیں نغمہ نگار شکیل بدایونی کے ساتھ کی ہیں اور ان دونوں کی جگل بندی ہمیشہ سپر ہٹ ہوئی۔ نوشاد کے پسندیدہ گلوکار کے طورپر محمد رفیع کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔ انہوں نے شکیل بدایونی اور محمد رفیع کے علاوہ لتا منگیشکر ،ثریا، اوما دیوی اور نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کو بھی فلم انڈسٹری میں ممتاز مقام دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ نوشاد کی موسیقی سے آراستہ مشہور فلموں میں پریم نگر، بیجو باورا، آن، بابل، رتن، شاہ جہاں، دلاری، دیدار، درد، انداز، امر، مدر انڈیا، اڑن کھٹولا، کوہ نور ، مغل اعظم ، پالکی اور میرے محبوب قابل ذکر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوشاد موسیقی کی دنیا کا بےتاج بادشاہ

نوشاد ایسے پہلے موسیقار تھے جنہوں نے پلے بیک سنگنگ کے میدان میں ساؤنڈ مکسنگ اور گانے کی ریکارڈنگ کو الگ رکھا۔ فلم موسیقی میں ایکورڈین کا سب سے پہلے استعمال بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔ ہندی فلم انڈسٹری کے وہ پہلے موسیقار تھے جنہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈ انہیں 1953 میں ریلیز ہوئی فلم بیجو باورا میں بہترین موسیقی کے لیے دیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہیں ا س کے بعد کوئی فلم فیئر ایوارڈ نہیں ملا۔ ہندوستانی سنیما میں ان کی قابل ذکر خدمات کے لیے 1982 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور 1992 میں بدم بھوشن سے نوازا گیا۔ تقریباً چھ دہائی کے طویل سفر میں اپنی موسیقی سے شائقین کا دل جیتنے والے موسیقار نوشاد پانچ مئی 2006 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.