فلک آفشاں:
ماڈلنگ اور ٹی وی اشتہارات سے اپنے کیرئیر کی شروعات کرنے والی اداکارہ دیپیکا پڈوکون کی زندگی کا ایک نیاسال شروع ہوگیا ہے۔ اداکارہ آج اپنی 37 ویں سالگرہ منارہی ہیں۔ تقریبا چار سال بعد بڑے پردے پر جلوہ گر ہونے کے لیے تیار دیپیکا پڈوکون یوں تو اپنے نئے سال کی شروعات فلم پٹھان کے ریلیز سے کریں گی، جس میں شاہ رخ خان اور جان ابراہم بھی اہم کردار میں ہوں گے، لیکن فی الحال اداکارہ سینسر بورڈ کی جانب سے ملے مشورے کے بعد یہ سوچنے میں مشغول ہیں کہ انہیں کس طرح کے لباس اور کس طرح کے رنگ کا انتخاب کرنا چاہیے جس سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور لوگ ان کی محنت و اداکاری پر بھی تھوڑا غور فرمالیں۔
دیپیکا کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب 15 سالہ طویل کیرئیر کے دوران ان پر 'بیشرم' ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ اس عرصے کے دوران کئی سیاستدانوں، میڈیا ادارے، ان کی ساتھی اداکارہ، سوشل میڈیا صارفین اور سب سے اہم مذہبی جماعتوں نے اداکارہ کے کپڑے، کپڑوں کے رنگ، خیالات، فلموں اور یہاں تک کہ ان کے ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے پر بھی اعتراض ظاہر کیا۔ لیکن اداکارہ نے ہمیشہ ان تنازعات کا سامنا صبر و تحمل سے کیا اور اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ان کی خاموشی کو ان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔
سال 2018 میں آئی ان کی فلم پدماوت کے خلاف کئی مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا اور اداکارہ کی ناک کاٹنے کی دھمکی دی ۔ فلم کے نام کو بدلنے کا مطالبہ کیا گیا اور فلم کا نام پدماوتی سے بدل کر پدماوت بھی کردیا گیا۔ لیکن فلم کے ریلیز ہونے سے پہلے جن لوگوں کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ فلم میں ان کی رانی کی شبیہ کو غلط طرح سے پیش کیا گیا ہے بعد میں انہی لوگوں نے فلم کے ریلیز کے بعد یہ کہتے ہوئے احتجاج واپس لینے کا فیصلہ کیا کہ 'فلم میں راجپوت بہادری کی تعریف کی گئی ہے'۔
دیپیکا پڈوکون کی شروعاتی فلمیں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہیں لیکن فلم کاکٹیل میں اداکارہ کی بے باک اداکاری نے شائقین اور ناقدین کا اعتماد حاصل کرلیا اور اس کے بعد انہوں نے دوبارہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گزشتہ سال جب پورا ملک ان کے ایک مخصوص رنگ کے بکنی پہننے پر احتجاج کر رہا تھا تب دیپیکا پڈوکون نے عالمی سطح پر بھارت کے ہر رنگ کو کینوس میں لانے کا کام کیا۔ وہ واحد پہلی بھارتی ہیں جنہوں نے فیفا ورلڈکپ فائنل کی ٹرافی کی نقاب کشائی کی۔
دیپیکا پڈوکون ان چند اداکاراؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ذہنی بیماری پر کھل کر بات کی ہے۔ ذہنی بیماری کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے انہوں نے 'لیو لو لاف' جیسی تنطیم کی بنیاد رکھی ہے۔ لیکن سال 2020 میں بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی اچانک موت کے بعد اداکارہ کنگنا رناوت نے ایک نیشنل چینل پر کہا کہ 'دیپیکا ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی جھوٹی کہانیاں بنا رہی ہیں'۔ اس موضوع پر بھی دییپیکا نے کچھ نہ کہنے کا فیصلہ کیا اور ذہنی بیماری سے متعلق اپنے کام کو جاری رکھا۔
ملک کے کشیدہ سیاسی ماحول میں جب ہندی سنیما کے نامور ہستیوں نے ظلم و جبر کے خلاف خاموشی اختیار کی ہوئی تھی تب دیپیکا پڈوکون نے بغیر کچھ کہے اس کی مخالفت کی تھی۔ سال 2020 میں بطور پروڈیوسر دیپیکا پڈوکون کی آنے والی پہلی فلم چھپاک کی ریلیز سے عین قبل دہلی میں واقع جواہر لعل یونیورسٹی میں وہ ان طلباء کے ساتھ خاموشی سے کھڑی رہیں جن پر سی اے اے مخالف مظاہروں میں حصہ لینے کے بعد حملہ کیا گیا تھا۔ دیپیکا کے جے این یو پہنچنے والے عمل کو بہت سے لوگوں نے مانا کہ یہ ان کی آئندہ فلم کے لیے ایک پبلسٹی اسٹنٹ ہے لیکن یاد رہے کہ عوام کے درمیان جاکر ایک مضبوط اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہوکر طلباء کی حمایت کرنا ایک بہادری کا کام ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب بالی ووڈ نے سیاست اور اس کے معاملات سے آنکھیں پھیر لی ہو اور خاموشی اختیار کر لی ہو۔