ETV Bharat / entertainment

Naseeruddin Shah Birthday: نصیر الدین شاہ نے آرٹ فلموں کو نئی بلندی پر پہنچایا

author img

By

Published : Jul 20, 2022, 6:53 AM IST

Updated : Jul 20, 2022, 12:05 PM IST

ممبئی: بالی ووڈ کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ کا آج یوم پیدائش ہے۔ بالی ووڈ میں نصیر الدین شاہ ایسے ستارے کی طرح ہیں جنہوں نے مضبوط اداکاری سے متوازی سنیما کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ فلموں میں خاص شناخت بنائی ہے۔ Happy Birthday Naseeruddin Shah

نصیر الدین شاہ نے آرٹ فلموں کو نئی بلندی پر پہنچایا
نصیر الدین شاہ نے آرٹ فلموں کو نئی بلندی پر پہنچایا

ممبئی: 20 جولائی 1950 کو اتر پردیش کے بارہ بنکی میں پیدا ہوئے نصیر الدین شاہ نے ابتدائی تعلیم اجمیر اور نینی تال سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گریجویشن کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ سال 1971 میں اداکار بننے کا خواب لیے انہوں نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا۔ سال 1975 میں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز اور ڈائریکٹر شیام بینیگل سے ہوئی۔ شیام بینیگل اُن دنوں فلم 'نِشانت' بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس ملاقات کے دوران شیام بینیگل نے نصیر الدین کو ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا اور اپنی فلم میں کام کرنے کا موقع دیا۔ Naseeruddin Shah First Movie Name Nishant

سال 1976 نصیر الدین کے فلمی کیریئر کے لیے اہم ثابت ہوا۔ اسی سال ان کی بھومیکا اور منتھن جیسی کامیاب فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ فلم منتھن میں ناظرین کو ان کی اداکاری کے نئے رنگ دیکھنے کو ملے۔ اس فلم کی تیاری کے لیے گجرات کے تقریباً پانچ لاکھ کسانوں نے اپنی فی دن ملنے والی اجرت میں سے دو دو روپے فلم سازوں کو دیئے تھے۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

نصیر الدین شاہ نے آرٹ فلموں کو نئی بلندی پر پہنچایا

سال 1977 میں اپنے دوست بینجامن گیلانی اور ٹام الٹر کے ساتھ مل کر نصیر الدین شاہ نے موٹیلے پروڈکشن نامی ایک تھیٹر گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے سیموئل بیکٹ کی ہدایت میں پہلا ڈرامہ 'ویٹنگ فار گوڈوٹ' پرتھوی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔ سنہ 1979 میں ریلیز ہونے فلم 'اسپرش' میں ناظرین کو نصیر الدین شاہ کی اداکاری کا ایک نیا انداز دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں اندھے شخص کا کردار ادا کرنا کسی بھی اداکار کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، چہرے کے تاثرات سے ناظرین کو سب کچھ بتادینا نصیر الدین شاہ کی اداکاری کی صلاحیت کی ایسی مثال تھی جسے شاید ہی کوئی اداکار دوہرا پائے۔ اس فلم میں بہترین اور لاجواب اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سال 1980 میں آئی فلم 'آكروش' نصیرالدین شاہ کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔ گووند نہلانی کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم میں نصیر الدین ایک ایسے وکیل کے کردار میں نظر آئے جو سماج اور سیاست کی پرواہ کئے بغیر ایک بے قصور شخص کو پھانسی کے پھندے سے بچانا چاہتا ہے اگرچہ اسے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سنہ 1983 میں نصیر الدین شاہ کو سائی پرانجپے کی فلم 'کتھا' میں کام کرنے کا موقع ملا، اس فلم کی کہانی میں کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کو علامتی انداز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم میں فاروق شیخ نے خرگوش کا کردار ادا کیا تھا جب کہ نصیر الدین شاہ کچھوے کے کردار میں تھے۔

اُسی سال نصیر الدین شاہ کے فلمی کیریئر کی ایک اور سُپر ہٹ فلم 'جانے بھی دو یارو' ریلیز ہوئی۔ کندن شاہ کی ہدایت میں بنی اس فلم میں نصیر الدین کی اداکاری کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کے ہی قابل ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو مسحور کردیا۔ اس کے بعد سنہ 1985 میں نصیر الدین شاہ کے فلمی کیریئر کی ایک اور اہم فلم 'مرچ مسالا' ریلیز ہوئی۔ ملک کی آزادی سے پہلے کے پس منظر پر بنی فلم 'مرچ مسالا' نے ڈائریکٹر کیتن مہتا کو بین الاقوامی سطح پر شہرت دلائی تھی۔ یہ فلم جاگیردارانہ نظام کے درمیان پِستی عورت کی جدوجہد کی کہانی بیان کرتی ہے۔

اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں نصیر الدین شاہ نے کاروباری سنیما کی جانب رخ کیا۔ اس دوران انہیں 'ہیرو ہیرا لال، مالا مال، جلوہ، تری دیو' جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن کی کامیابی سے نصیر الدین شاہ کو کاروباری سنیما میں بھی مقام حاصل ہوگیا۔

اس کے بعد 90 کی دہائی میں نصیر الدین شاہ نے ناظرین کی پسند کے پیش نظر چھوٹے پردے کا بھی رخ کیا اور سال 1988 میں گلزار کی ہدایت میں بنے سیریل 'مرزا غالب' میں اداکاری کی۔ اس کے علاوہ سال 1989 میں 'بھارت ایک کھوج' سیریل میں انہوں نے مراٹھا سورما شیواجی کے کردار کو متحرک کرکے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اداکاری میں یکسانیت سے بچنے اور خود کو کیریکٹر آرٹسٹ کے طور پر بھی پیش کرنے کے لیے 90 کی دہائی میں انہوں نے خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالا۔

اس ترتیب میں 1994 میں ریلیز ہونے والی فلم 'مرسا' میں وہ منفی کردار ادا کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے ناظرین کا دل جیت لیا اور اسی فہرست میں انہوں نے ٹکر، ہمت، سرفروش اور کرش جیسی فلموں میں بھی منفی کردار ادا کرکے شائقین کو محظوظ کیا۔نصیر الدین شاہ کے فلمی کیریئر میں ان کی جوڑی سمیتا پاٹل کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔

نصیرالدین شاہ کو اب تک تین بار بہترین اداکار کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، ساتھ ہی وہ تین بار نیشنل ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم میں ان کی قابل قدر خدمات کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سے انہیں پدم شری اور پدم بھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ نصیر الدین شاہ نے تین دہائی طویل فلمی کیریئر میں اب تک تقریباً 200 فلموں میں اداکاری کی ہے اور آج بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ فلم انڈسٹری میں وہ فعّال ہیں۔

ممبئی: 20 جولائی 1950 کو اتر پردیش کے بارہ بنکی میں پیدا ہوئے نصیر الدین شاہ نے ابتدائی تعلیم اجمیر اور نینی تال سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گریجویشن کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ سال 1971 میں اداکار بننے کا خواب لیے انہوں نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا۔ سال 1975 میں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز اور ڈائریکٹر شیام بینیگل سے ہوئی۔ شیام بینیگل اُن دنوں فلم 'نِشانت' بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس ملاقات کے دوران شیام بینیگل نے نصیر الدین کو ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا اور اپنی فلم میں کام کرنے کا موقع دیا۔ Naseeruddin Shah First Movie Name Nishant

سال 1976 نصیر الدین کے فلمی کیریئر کے لیے اہم ثابت ہوا۔ اسی سال ان کی بھومیکا اور منتھن جیسی کامیاب فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ فلم منتھن میں ناظرین کو ان کی اداکاری کے نئے رنگ دیکھنے کو ملے۔ اس فلم کی تیاری کے لیے گجرات کے تقریباً پانچ لاکھ کسانوں نے اپنی فی دن ملنے والی اجرت میں سے دو دو روپے فلم سازوں کو دیئے تھے۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

نصیر الدین شاہ نے آرٹ فلموں کو نئی بلندی پر پہنچایا

سال 1977 میں اپنے دوست بینجامن گیلانی اور ٹام الٹر کے ساتھ مل کر نصیر الدین شاہ نے موٹیلے پروڈکشن نامی ایک تھیٹر گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے سیموئل بیکٹ کی ہدایت میں پہلا ڈرامہ 'ویٹنگ فار گوڈوٹ' پرتھوی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔ سنہ 1979 میں ریلیز ہونے فلم 'اسپرش' میں ناظرین کو نصیر الدین شاہ کی اداکاری کا ایک نیا انداز دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں اندھے شخص کا کردار ادا کرنا کسی بھی اداکار کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، چہرے کے تاثرات سے ناظرین کو سب کچھ بتادینا نصیر الدین شاہ کی اداکاری کی صلاحیت کی ایسی مثال تھی جسے شاید ہی کوئی اداکار دوہرا پائے۔ اس فلم میں بہترین اور لاجواب اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سال 1980 میں آئی فلم 'آكروش' نصیرالدین شاہ کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔ گووند نہلانی کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم میں نصیر الدین ایک ایسے وکیل کے کردار میں نظر آئے جو سماج اور سیاست کی پرواہ کئے بغیر ایک بے قصور شخص کو پھانسی کے پھندے سے بچانا چاہتا ہے اگرچہ اسے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سنہ 1983 میں نصیر الدین شاہ کو سائی پرانجپے کی فلم 'کتھا' میں کام کرنے کا موقع ملا، اس فلم کی کہانی میں کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کو علامتی انداز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم میں فاروق شیخ نے خرگوش کا کردار ادا کیا تھا جب کہ نصیر الدین شاہ کچھوے کے کردار میں تھے۔

اُسی سال نصیر الدین شاہ کے فلمی کیریئر کی ایک اور سُپر ہٹ فلم 'جانے بھی دو یارو' ریلیز ہوئی۔ کندن شاہ کی ہدایت میں بنی اس فلم میں نصیر الدین کی اداکاری کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کے ہی قابل ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو مسحور کردیا۔ اس کے بعد سنہ 1985 میں نصیر الدین شاہ کے فلمی کیریئر کی ایک اور اہم فلم 'مرچ مسالا' ریلیز ہوئی۔ ملک کی آزادی سے پہلے کے پس منظر پر بنی فلم 'مرچ مسالا' نے ڈائریکٹر کیتن مہتا کو بین الاقوامی سطح پر شہرت دلائی تھی۔ یہ فلم جاگیردارانہ نظام کے درمیان پِستی عورت کی جدوجہد کی کہانی بیان کرتی ہے۔

اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں نصیر الدین شاہ نے کاروباری سنیما کی جانب رخ کیا۔ اس دوران انہیں 'ہیرو ہیرا لال، مالا مال، جلوہ، تری دیو' جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن کی کامیابی سے نصیر الدین شاہ کو کاروباری سنیما میں بھی مقام حاصل ہوگیا۔

اس کے بعد 90 کی دہائی میں نصیر الدین شاہ نے ناظرین کی پسند کے پیش نظر چھوٹے پردے کا بھی رخ کیا اور سال 1988 میں گلزار کی ہدایت میں بنے سیریل 'مرزا غالب' میں اداکاری کی۔ اس کے علاوہ سال 1989 میں 'بھارت ایک کھوج' سیریل میں انہوں نے مراٹھا سورما شیواجی کے کردار کو متحرک کرکے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اداکاری میں یکسانیت سے بچنے اور خود کو کیریکٹر آرٹسٹ کے طور پر بھی پیش کرنے کے لیے 90 کی دہائی میں انہوں نے خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالا۔

اس ترتیب میں 1994 میں ریلیز ہونے والی فلم 'مرسا' میں وہ منفی کردار ادا کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے ناظرین کا دل جیت لیا اور اسی فہرست میں انہوں نے ٹکر، ہمت، سرفروش اور کرش جیسی فلموں میں بھی منفی کردار ادا کرکے شائقین کو محظوظ کیا۔نصیر الدین شاہ کے فلمی کیریئر میں ان کی جوڑی سمیتا پاٹل کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔

نصیرالدین شاہ کو اب تک تین بار بہترین اداکار کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، ساتھ ہی وہ تین بار نیشنل ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم میں ان کی قابل قدر خدمات کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سے انہیں پدم شری اور پدم بھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ نصیر الدین شاہ نے تین دہائی طویل فلمی کیریئر میں اب تک تقریباً 200 فلموں میں اداکاری کی ہے اور آج بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ فلم انڈسٹری میں وہ فعّال ہیں۔

Last Updated : Jul 20, 2022, 12:05 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.