پاکستانی اداکار عدنان صدیقی جو اکثر بھارتی فلموں کی تنقید اور بھارت و پاکستان کے تعلقات پربھ ہے۔ خیال رہے کہ اڑی دہشت گردی کے حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انٹرویو میں انہوں نے اپنے شو کے بھارت میں نشر ہونے پر کہا کہ ' میرے پڑوسی ملک میں بھی میرا شو لوگ دیکھنے والے ہیں، حالانکہ یہ شو پہلے ہی وہ شہرت حاصل کرچکا تھا جب اسے سرحد کے پار دیکھا گیا تھا۔ لوگوں کے لیے شو کو دوبارہ دیکھنا ان کے لیے ایک اچھا تجربہ رہے گا۔ اب لوگ اسے زندگی میں دیکھیں جو مختلف ہوگا کیونکہ اس سے پہلے وہ یوٹیوب جیسے مختلف پلیٹ فارمز پر شو دیکھتے تھے۔
جب عدنان سے پوچھا گیا کہ کیا فن میں سیاسی درد کو کم کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے جواب میں عدنان نے کہا کہ فن نے ہمیشہ سے یہ کام کیا ہے۔ اے پالیٹیکل جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، لیکن فنکاروں کی ایک حد ہوتی ہے۔صحت مند ثقافتی تبادلہ ہونا چاہیے۔ میں مانتا ہوں کہ رواداری کی قسم – مجھے اتنے دو ٹوک بات کرنے کے لیے معاف کریں لیکن ہماری رواداری بھارتی شائقین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ہم ہندوستانی فنکاروں، ہندوستانی کرکٹرز کو قبول کرتے ہیں، ہم ہندوستان کی ہر اچھی چیز کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ بات سرحد پار جاتی ہے۔ تو لوگ بہت سیاسی ہو ہوجاتے ہیں ہے۔ میں نہیں جانتا یہ کیوں ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں مام کی شوٹنگ کر رہا تھا تو اس کی فلمنگ کو بہت خاموش رکھا گیا تھا، کیونکہ اس وقت فواد خان والا تنازع ہوچکا تھا۔ بونی کہہ رہے تھے کہ ہم انٹرویو نہیں کر سکتے، عوامی نمائش نہیں کر سکتے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس کی ذمہ داری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں دونوں کو اٹھانی چاہیے۔جہاں کہیں بھی فن شامل ہوتا ہے وہاں کم از کم نرمی کا مظاہرہ ہونا چاہیے'۔