بیگو سرائے کی بات کریں تو گزشتہ کئی پارلیمانی انتخابات میں یہاں سی پی آئی کا امیدوار تیسرے نمبر پر ہی رہی ہے۔ حالانکہ کنہیا کمار کے آنے کے بعد سی پی آئی کے دفتر میں روشنی سی آ گئی لیکن بیگوسرائے کے لوگ میں لال سلام کے ساتھ جانا پسند نہیں کیا۔ کنہیا کمار کو صرف 22 فیصد ووٹ یعنی 269976 ووٹ ملے اور گری راج سنگھ کو 687577 ووٹ ملے۔
کنہیا کی شکست میں گری راج سنگھ کی سخت گیر ہندتوا والی شبیہ نے خوب کام کیا۔ گری راج سنگھ لوگوں کو یہ بتانے میں کامیاب ہوئے کہ کنہیا ہندو مخالف ہے۔ اس انتخاب یہ بھی موضوع بنا کی کنہیا نے اپنے والد کی موت کے بعد بھی اپنا منڈن نہیں کرایا۔ دراصل ہندو رسم و رواج میں کسی کے گھر میں کسی کی موت ہو جائے تو اس کے خاندان والے سر منڈواتے ہیں۔
گری راج سنگھ نے اپنے انتخابی مہم کا آغاز حب وطن بنام ملک مخالف سے کیا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔ بار بار پاکستان پرست اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے الفاظ کا استعمال کر کنہیا پر نکتہ چینی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ سرجیکل اسٹرائیک اور مودی کا جواب کنہیا کمار یا سی پی آئی کے پاس نہیں تھا۔
کنہیا کے بہار کی سیاست میں انٹری کے بعد سے ہی یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگی کہ لالو یادو کی پارٹی آر جے ڈی بیگو سرائے میں کنہیا کی حمایت کرے گی۔ لیکن آخری موقع پر سی پی آئی اور آر جے ڈی کے دومیان اتحاد نہیں بن سکا۔ دونوں پارٹیوں نے امیدوار اتارا۔ جس کا براہ راست فائدہ گری راج سنگھ کو ہوا۔ حالانکہ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ کنہیا کمار اور تنویر حسن کے ووٹ کو ملا بھی دیں تو 466776 ووٹ ہوتے ہیں۔ یعنی گری راج سنگھ سے تقریبا دو لاکھ ووٹ کم ملے۔
سی پی آئی جو ملک کے تقریبا تمام حصوں سے ختم ہونے کو ہے۔ اس کا حال یہ ہے کہ مغربی بنگال جہاں بایئں بازو کی پارٹی نے 30 برس سے زائد قابض رہی وہاں سی پی آئی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔